کشمیرمیں کرفیو کا 86 واں دن،نہ غذا نہ دوا،دنیا خاموش،بہت افسوس،بہت افسوس

0
34

سری نگر: مقبوضہ وادی میں بھارتی لاک ڈاؤن 86 ویں روز میں داخل ہوگیا،دوسری طرف کشمیری آج یوم سیاہ بھی منارہے ہیں ، کشمیری روز مرہ کی ضروری اشیاء خریدنے سے قاصر ہیں، دودھ بچوں کی خوراک، ادویات سب ختم ہوچکا ہے۔ وادی میں لاک ڈاؤن کے باعث کشمیریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔قابض انتظامیہ کی جانب سے لوگوں کو مظاہرے سے روکنے کیلئے وادی میں سخت پابندیاں نافذ کردی گئی ہیں اور ہر طرف فوج ہی فوج نظر آرہی ہے،کشمیرکا ہر چوک ہر بازار اور ہر موڑ اس وقت بھارتی مظالم کے خلاف احتجاج کرتا نظرآرہا ہے ،

مصنوعی کیلشئیم ۔ خون کی شریانوں کے امراض کا خطرہ

ذرائع کے مطابق پاکستان اور ایل او سی کے دونوں جانب کشمیریوں نے کل اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا ہے ، صدر نے اپنے پیغام میں کہا کہ کشمیریوں کا مقدمہ پاکستان کا مقدمہ ہے، اسے ہر فورم پر اٹھائیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر عالمی برادری سے کشمیر میں بھارتی مظالم ختم کرانے کا مطالبہ کر دیا۔

حریت کانفرنس نے لال چوک کی جانب مارچ کا اعلان کیا ہے، پاکستان میں بھی شہر شہر ریلیاں اور مظاہرے کئے گئے ہیں۔بھارت نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو بار بار دبانے کے کوشش کی ، مگر 1989 سے کشمیریوں نے اس تحریک کو اس نہج پر کھڑا کیا کہ ہر آنے والے دن یہ تحریک مضبوظ ہورہی ہے، ترجمان دفترخارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ مقبوضہ کشمیرمیں 1989 سےاب تک ایک لاکھ شہادتیں ہوچکی ہیں، مقبوضہ کشمیرمیں 3 دہائیوں میں 11 ہزار خواتین کی عصمت دری کی گئی۔

طوفانی بارشوں سے تباہی،7 افراد ہلاک

خیال رہے کہ کل پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم سیاہ کشمیر منایاگیا، 27 اکتوبر 1947 کو بھارت نے جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا، رواں سال 5 اگست کو بھارت نے ایک اور مذموم قدم اٹھا کر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے اسے بھارت کا حصہ بنایا اور اس کے بعد سے وادی میں مسلسل کرفیو نافذ ہے۔

تفصیلات کے مطابق جنت نظیروادی کشمیر کو بھارتی فورسز نے قیدخانے میں تبدیل کردیا ہے، مسلسل بیاسی روز سے 80 لاکھ افراد کرفیو تلے زندگی گزارنے پر مجبورہیں، قابض بھارتی فورسزکی کشمیریوں پر ہر گزرتے دن کیساتھ سختیاں اور مظالم بڑھتے جارہے ہیں، نہ بچے اسکول جاسکتے ہیں اور نہ ہی مریض سپتال۔

مسجد کے باہر فائرنگ سے 2 افراد زخمی

کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ علاقے میں بڑی تعداد میں بھارتی فوجیوں کی تعیناتی کے خوف اور غیر یقینیت کا ماحول اور رات گئے چھاپوں، ظلم و تشدد اور گرفتاریوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے، دفعہ 144کے تحت سخت پابندیوں کا نفاذ اورانٹرنیٹ اور پری پیڈ موبائیل فون سروسز بھی بدستور معطل ہیں۔

مقبوضہ علاقے میں صورتحال کو معمول پر لانے کی قابض انتظامیہ کی کوششوں کے باوجود کشمیری بھارتی تسلط اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے مودی حکومت کے 5اگست کے غیر قانونی اقدام کیخلاف سول نافرمانی کی پر امن تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دکانیں اور کاروباری مراکز دن بھر بیشتر وقت بند رہتی ہیں جبکہ سڑکوں پرکوئی پبلک ٹرانسپورٹ مشکل ہی نظر آتی ہے، آبادیوں میں جعلی آپریشن ہورہے ہیں، رہنماؤں سمیت گیارہ ہزار کشمیری جیلوں میں قید ہیں، ڈھائی ماہ سے کشمیریوں کو نماز جمعہ ادا کرنے نہیں دی جارہی ہے، بھارتی مظالم کیخلاف نماز جمعہ کے بعد احتجاج کیا جائے گا۔

امریکی سینیٹرکرس وان ہولین نے گزشتہ ہفتے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیرمیں کرفیو ہٹا کر انسانی حقو ق کے نمائندے بھیجے جائیں۔یاد رہے کہ گزشتہ دنوں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے نئی دہلی جانے والے امریکی سینیٹر کو وادی کا دورہ کرنے سے روک دیا تھا۔

دوسری طرف 5 اگست سے ،جب بھارت کی حکومت نے آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا ،کشمیر میں نجی شعبے میں کام کرنے والے ایک لاکھ سے زیادہ افراد اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (کے سی سی آئی)کے ابتدائی جائزے کے مطابق 5 اگست کے بعد سے عائد پابندیوں ، شٹ ڈاؤن اور مواصلات کی معطلی کی وجہ سے ، سیاحت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ کے سی سی آئی کے صدر ، شیخ عاشق نے بتایاکہ ہمارے تخمینے کے مطابق پچھلے تین ماہ کے دوران ملازمتوں میں ایک لاکھ سے زیادہ کی کمی ہوئی ہے ۔

سیاحت کا شعبہ جس سے تقریباً پانچ لاکھ افراد کاروزگار وابستہ ہے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے ۔ سیاحت کے شعبے میں اب تک ملازمتوں میں پچاس ہزارکے قریب کمی کی اطلاع ملی ہے۔ اگر صورتحال میں بہتری نہیں آئی تو تعداد بڑھ سکتی ہے۔ وادی میں1100 ہوٹلوں میں سے تقریبا 80 فیصد تین ماہ سے بند ہیں۔ انہوں نے ساؤتھ ایشین وائر کو بتایا کہ یہاں تقریباً 300 ریسٹورانٹ، 900 ہاؤس بوٹ ، 600 شکارا کشتیاں اور 5000 ٹیکسیاں ہیں ، جن کا براہ راست انحصار سیاحت پر ہے۔

کے سی سی آئی کے صدر نے مزید بتایاکہ سیاحت کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرنے والے دیگر نجی دفاتر بند کر دیے گئے ہیں۔ مختلف کورئیر سروسز میں کام کرنے والے تقریباً 3000 لڑکے بیکار بیٹھے ہیں ، انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کی وجہ سے ، تمام ای کامرس کمپنیوں نے وادی میں سروسز کی فراہمی بند کردی ہے۔ نجی اسکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ کو خدشہ ہے کہ اگر صورتحال ایسے ہی رہی تو انہیں ملازمت سے برطرف کردیا جائے گا۔ نجی اسکول کی ایک استاد شازیہ نے بتایاکہ انہیں پچھلے دو ماہ سے تنخواہیں نہیں دی گئیں۔

جب نیوز ایجنسی نے اسکول کی انتظامیہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے شکوہ کیا کہ طلبا پچھلے تین ماہ سے واجبات جمع نہیں کرواسکے ہیں ، جس وجہ سے وہ اساتذہ کو تنخواہیں دینے سے قاصر ہیں۔ 5 اگست کے بعد سے ، کاروباری ادارے ، پبلک ٹرانسپورٹ ،تعلیمی ادارے اور دکانیں اپنے "اوپن اینڈ شٹ شیڈول” کے تحت بند ہیں۔ بیشتر دکانیں اورکاروباری ادارے صبح 7 بجے سے صبح 10 بجے تک کھلے رہتے ہیں ، لیکن دن میں بند رہتے ہیں ايک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ2011 کی مردم شماری کے مطابق وادی کشمیر کی آبادی 70 لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وادی میں معاشی شعبوں سے تقریباً20 لاکھ افراد اپنا روزگار کماتے ہیں۔

Leave a reply