ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ گالی دیے بغیر اپنی بات مکمل نہیں کر سکتے۔ وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی بات میں گالی دینے سے انکی بات کا وزن بڑھ جائے گا یا بات سننے والے پراس طرح سے رعب پڑے گا یا اس سے متاثر ہو گا۔ کچھ لوگوں کی تو عادت بن چکی ہے اور کچھ لوگ اس فعل کو فخریہ اپنی مشہوری کے طور پر بیان کر رہے ہوتے ہیں کہ فلاں کو بھئی بڑی گالیاں دی میں نے۔
ہماری گالیوں میں آخرکون ہوتا ہے ؟ اس کا جواب ہے ” عورت ” ۔
جی ہاں ہماری گالیوں میں عورت ہوتی ہے۔ آخر وہ عورت کون ہے ؟
وہ عورت جو تمہیں پیدا کرتی ہے، تمہاری پرورش کرتی ہے اورتمہیں بولنا سکھاتی ہے۔ لیکن تمہاری گالیوں میں پھر بھی اسی کا نام ہوتا ہے۔ بہو کی صورت میں ہوگی۔ پڑھا لکھا انسان ہو یا ان پڑھ یہ بد فعلی اکثرمیں موجود ہوتی ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، کہیں کسی موقع پرکسی بات پراختلاف ہو جائے یا تلخ جملوں کا تبادلہ ہوجائے تو آپ کو وہاں کھلے عام گالیاں بکتے لوگ نظرآئیں گے۔ حتیٰ کہ ہمارے حکمران جو ٹی وی شوزاور پارلیمنٹ میں موجو ہوتے ہیں جو ہماری نمایندگی کررہے ہیں وہ بھی اس برے عمل کا شکارنظرآتے ہیں۔
اللّٰہ پاک نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا اور ہمیں سمجھ بوجھ عطا کی۔ ہمیں صبرکرنے کا حکم دیا۔ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے اورہمارے پاس قرآنِ کریم ہے جو ہمیں سیدھے راستے پرچلنے کا صحیح راہ دکھاتا ہے توہم کیوں غفلت میں سب بھولائے بیٹھے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں اوراسلام ایک مہذب دین ہے اسلیئے اس نےگالی کو سنگین جرم اورگناہ کبیرہ قراردیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ اسلام میں تو ایک غیرمسلم کو بھی گالی دینا جائزنہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں گالم گلوچ کو بطورہتھیار اورآخری حربہ استعمال کیا جاتا ہے جو تعلیمات دین، اسلام اور تعلیمات محمدی ﷺ کی سراسرمنافی ہے۔
قرآن مجید میں عورت کی اہمیت اورمقام کے بارے میں کئی ایک آیات موجود ہیں۔ اسلام کی آمد سے قبل عورت بہت مظلوم اورمعاشرتی و سماجی عزت واحترام سے محروم تھی۔ اسے تمام برائیوں کا سبب اورقابل نفرت تصورکیا جاتا تھا۔ اہل عرب کا عورت کے ساتھ بدترین رویہ تھا۔ قرآن حکیم نے واضح کیا کہ زمانۂ جاہلیت میں عورت کا مرتبہ ناپسندیدہ تھا وہ مظلوم اورستائی ہوئی تھی اورہرقسم کی بڑائی اورفضیلت مردوں کے لئے تھی۔ اس میں عورتوں کا حصہ نہ تھا حتی کہ عام معاملات زندگی میں بھی مرد اچھی چیزیں خود رکھ لیتے اوربیکارچیزیں عورتوں کو دیتے۔
لیکن دین اسلام کے بعد یہ سب بدل گیا اورہمیں یہ بتایا گیا کہ عورت مقدس ہے، قابل احترام اورقابل عزت ہے۔ ہمیں نا صرف اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا ہے بلکہ وہ تمام حقوق بھی پورے کرنے ہیں جو ہمیں قرآن کریم میں بتائے گئے ہیں. ہمیں خود کو بدلنا ہوگا، ہمیں اس معاشرے کو بدلنا ہوگا۔ میٹھا بولیں، پیارسے بات کریں، کوئی انسان آپ سے بات تلخ کریں تو صبرکریں۔ اکثرکچھ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں نے ایسا بولا تو مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔ اصل برداشت ہی صبرکرنا ہے۔
اللّٰہ پاک ہمیں اس بد فعلی اور گندی زبان استعمال کرنے سے اورشیطان کو خود پرہاوی ہونے سے بچائیں۔ اللّٰہ پاک ہمیں اس معاشرے کو اچھائی کی طرف راغب کرنے اور بدلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !
@HRA_07








