قربانی سنت ابراہیمی ہے تحریر: تماضر خنساء

0
69

حلال جانور کو تقرب الہی کیلیے قربان کرنے کا سلسلہ
حضرت آدم ع سے چلا آرہا ہے جب آپ ع کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل نے بارگاہ ایزدی میں اپنی قربانی پیش کی.
قرآن پاک اس کو کچھ یوں بیان کرتا ہے :
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّـهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ﴿سورۃ المائدۃ ٢٧﴾

اور پیغمبر علیھم السّلام آپ ان کو آدم علیھم السّلام کے دونوں فرزندوں کا سچا ّقصّہ پڑھ کر سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی دی اور ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی نہ ہوئی تو اس نے کہا کہ میں تجھے قتل کردوں گا تو دوسرے نے جواب دیا کہ میرا کیا قصور ہے خدا صرف صاحبان تقوٰی کے اعمال کو قبول
کرتا ہے (27)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قربانی کی عبادت آدم ع کے زمانے سے ہی چلی آرہی ہے مگر اس کی خاص پہچان خلیل اللہ کی وہ عظیم قربانی ہے کہ جس پر زمین و آسماں انگشت بدنداں تھے ۔
اور اسی عظیم واقعے کی بنا پر یہ امت محمدیہ پر واجب کردیا گیا کہ ہر سال خلیل اللہ کی اس عظیم قربانی کا عمل دہرایا جاتا رہے گا ۔
اس عظیم قربانی کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ
سید نا ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر رہے ہیں ۔انھوں نے اس کا تذکرہ اپنے بیٹے سے کیا تو اسماعیل نے کہا : آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے ، ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ رب العزت نے اس بارے میں فرمایا:
پھر جب دونوں مطیع ہو گئے اور ابراہیم نے اسے پیشانی کے بل گرادیا اور ہم نے اسے ندادی کہ اے ابراہیم علیہ السلام ! یقینا تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ یقینا ہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی بدلہ دیتے ہیں.
(سورۃ الصافات: 103 – 105 )

یہ قربانی کیاتھی؟ محض خون اور گوشت کی قربانی نہ تھی بلکہ روح اور دل کی قربانی تھی ۔ یہ محض باپ کا اپنے اکلوتے بیٹے کے خون سے زمین کو رنگین کرد ینا نہ تھا بلکہ اللہ تعالی کے سامنے اپنے ہرقسم کے ارادے اور مرضی کومٹادینا تھا۔ یہ اپنی عزیز ترین متاع کو اللہ تعالی کے سامنے پیش کرنا تھا۔ یہ تسلیم ورضا ،صبراور شکر کا وہ امتحان تھا جس کو پورا کیے بغیر اللہ تعالی کی رضا نہیں مل سکتی ۔ یہ غیر اللہ کی محبت کی قربانی اللہ تعالی کے راستے میں تھی۔ یہ اللہ تعالی کی اطاعت اور عبودیت کا بے مثال منظر تھا۔ جانوروں کی ظاہری قربانی دراصل اپنی روح اور دل کی قربانی ہے ۔اسلام قربانی ہے۔اسلام کے لفظی معنی اپنے آپ کو اپنی مرضی کو اللہ تعالی کے سپرد کردینا اور اس کی اطاعت اور بندگی کے لیے گردن سر تسلیم خم کر دینا ہے ۔قربانی قرب کا ذریعہ بنتی ہے ،اسی سے انسان سیکھتا ہے کہ اللہ تعالی کی خاطر کیسے اپنا سب کچھ قربان کرنا ہے ؟ اپنامال ، صلاحیتیں ،قوتیں ، وقت اور ضرورت پڑنے پر جان بھی جو کچھ بھی رب کی طرف سے ملا ہو، سب کچھ قربان کرنا ہے ۔ جانور کو قربان کر کے انسان قربانی کا سبق سیکھتا ہے ۔ یہی وہ حقیقت ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ کے اس ایثار اور قربانی سے ظاہر ہوتی ہے ۔ یہی وہ برکت ہے جس کو مسلمان دن میں پانچ مرتبہ اپنے رب کے سامنے یاد کرتے ہیں: اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم اے اللہ تو محمد اور محمد کی آل پر برکت نازل کر، جس طرح تو نے ابراہیم اورا براہیم کی آل پر برکت نازل کی
قربانی ایک اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے،یہ نمائش یا کسی رسم کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عبادت اور مذہبی فریضہ ہے، کیونکہ فرمایا گیا کہ ”اللہ تعالیٰ کو ان جانوروں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا، بلکہ اسکو تمہاری جانب سے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
اگر ایسا نہیں تو ہمارا رد عمل کیا ہے؟ ہمارے دور میں ”سنت ابراہیمی“ ہم سے کیا تقاضا کرتی ہے؟
بس یہی بتانا تھا کہ اللہ کے پاس تو نیت اور تقوی پہنچے گا اور ہم کیا پہنچا رہے ہیں؟

@timazer_K
Twiter handle

Leave a reply