چنگیز خان اور اس کی سلطنت تحریر:محمد عمران خان

0
147

اگر ہم آج سے ایک ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو جو آج چین اور روس کا ہمسایہ ملک منگولیا ہے اس وقت یہاں مختلف چھوٹے چھوٹے قبیلے آباد تھے یہ لوگ خانہ بدوش تھے اپنے لئے کسی مناسب جگہ کا انتخاب کرتے اور پھر وہاں زندگی گزر بسر کرنے چلے جاتے اور جب وہاں کی آب و ہوا اور ان کے مویشیوں کے لئے چارہ کافی نہ ہوتا تو یہ لوگ وہاں سے کسی سرسبز اور بہتر جگہ پر ہجرت کر جاتے ان قبیلوں کے اپنے اپنے سردار تھے اور تمام قبیلہ سردار کے ماتحت ہوتا تھا اور تمام قبیلے والے اپنے سردار کی عزت کرتے اور ہر بات مانتے تھے،
ان قبیلوں میں سے ایک قبیلہ جس کا سردار یسوخئی نام کا جو ایک بہادر جنگجو بھی تھا اور اس کا تعلق بورجگین خاندان سے تھا اس کا ایک بیٹا جسکا نام تموجن جسے آج دنیا ”چنگیز خان” کے نام سے جانتی ہے پانچ سال کی عمر کا تھا اس کے باپ نے اپنے دوست کے قبیلے میں اس کی منگنی کروا دی ان خانہ بدوشوں کے تمام قبیلے ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے جھگڑتے اور ایک دوسرے کے گویا جانی دشمن بھی تھے یہی وجہ تھی کہ ہر قبیلہ کے لوگ جنگی مہارت رکھتے تھے، یسوخئی کو ایک دعوت میں بلا کر زہر دے دیا گیا اور جس سے اس کی موت واقع ہوگئی،
اب اس کے بیٹے کے خلاف قبیلے والوں نے بغاوت کردی کہ اس پانچ سال کے بچے کو ہم اپنا سردار نہیں مانتے انہوں نے تموجن اور اس کے گھر والوں کو قبیلے سے الگ ہونے کا کہہ دیا،
لیکن سردار کے قبیلے سے بغاوت کرنے والوں کو یہ معلوم ہو گیا کہ تموجن بڑا ہو کر کہیں ہم سے اس بغاوت کا بدلہ نا لے، انہوں نے اسے قتل کرنے کے منصوبے بنانے شروع کر دیئے، کئی مہینوں تک یہ ان کے ہاتھ نہ آیا اور وہ مسلسل اس کی تلاش میں پھرتے رہے۔وقت گزرتا گیا تموجن بڑا ہو چکا تھا، لیکن آخر کار جو اس کی جان کے درپے تھے انہوں نے اسے پکڑ لیا اور زنجیروں میں جکڑکر اپنے ساتھ لے گئے،لیکن اسے مارا نہیں بلکہ قید میں ڈال دیا،
تموجن کسی طرح ان کی قید سے نکلا اور گھر والوں کو ڈھونڈتا ہوا ان کے پاس پہنچ گیا، اس نے اپنی منگیتر کو واپس لانے کا فیصلہ کیا، چند عرصہ گزرنے کے بعد کچھ دشمنوں نے اسے آ لیا اس کے گھر والوں پر یلغار ہونے والی تھی جس کا اسے پہلے ہی علم ہو چکا تھا، اس نے اپنی بیوی کو ایک چھکڑے میں چھپایا اسے دوسری طرف روانہ کرتے ہوئے خود پاس بہتے پانی کی طرف روانہ ہو گیا،
سیانے کہتے ہیں کہ "جیسی کرنی ویسی بھرنی”
اس کا باپ یعنی یسوخئی ایک عورت کو کسی دوسرے قبیلے سے اغوا کر کے لایا تھا، سو آج یہ سب اس کے بیٹے کے ساتھ ہونے جارہا تھا، تموجن تو جان بچا کر بھاگ گیا لیکن جس طرف اس نے اپنی بیوی کو روانہ کیا تھا وہ چھکڑا پکڑا گیا اور وہ تموجن کی بیوی کو اپنے ساتھ لے گئے، کہا جاتا ہے کہ یہ وہی قبیلے والے تھے جن کی عورت کو اس کے باپ نے اغوا کیا تھا، سو آج یہ قدرتی انصاف مکافات عمل پورا ہوا،
مگر اس قسم کی باتیں وہ نہیں سوچتے تھے،
خیر آگے بڑھتے ہیں اور اس تموجن کی کہانی کو مکمل کرتے ہیں،
لیکن ابھی تو اس کہانی کی شروعات ہے۔ آپ اسے توجہ سے پڑھتے رہیں، شاید آپ کی معلومات میں تھوڑا اضافہ ہو سکے۔
تموجن کافی عرصے کے بعد اپنے گھر والوں کا پیچھا کرتے واپس لوٹا تو دیکھا اس کی بیوی گھر میں نہیں تھی، چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بیوی کو واپس لائے گا چاہے اسے کچھ بھی کرنا پڑے ایسے میں اس نے اپنے ایک دوست سے رابطہ کیا جس کا نام جموکا تھا اس نے پہلے تو اسے خبردار کیا کہ تم ایک عورت کی خاطر جنگ کرو گے بعد میں تموجن کے اصرار پر اس کے دوست جموکا نے اسے اپنے قبیلے کے سپاہیوں کا ایک لشکر اس کی کمان میں سونپ دیا۔ یہ اپنی بیوی کو لینے چل دیا،
اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ان کے قبیلے پر یلغار کر دی اور اونچی اونچی آواز میں بورتچینا بورتچینا پکارنے لگا بورتچینا اس کی بیوی کا نام تھا، اس نے اور اس کے ساتھ آنے والے سپاہیوں نے قبیلے والوں کے سر دھڑ سےالگ کر کے رکھ دیئے،
تموجن خیموں کی تلاشی کرتے کرتے اپنی بیوی تک جا پہنچا لیکن پھر کیا ہوا بیوی کو اغوا ہوئے 6/7 ماہ گزر چکے تھے اور اس کی بیوی اس عرصے میں امید سے ہو گئی تھی لیکن اس نے اپنی بیوی کو لیا اور وہاں سے گھر لوٹ آیا،
تموجن جسے اس کے قبیلے والوں نے تکلیفوں سے دوچار کیا اور خود سے الگ کر دیا اب وہ ان سے ان سب زیادتیوں کا بدلا لینا چاہتا تھا،
یہ اس قدر ضدی تھا کہ جس چیز کا دل کرتا وہ حاصل کرنے کسی بھی حد تک چلا جاتا۔ بچپن میں اپنے سگے بھائی کو تیر مار کے مار دیا، محض اس وجہ سے کہ وہ اس کی دریا سے پکڑی ہوئی مچھلی کھا جاتا تھا،
آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ خانہ بدوش قبیلے ایک تو اپنی دشمنیوں کی وجہ سے بہترین جنگجو تھے دوسرا یہ کہ ان کا پیشہ بھی تھا وہ تیز دوڑتے گھوڑوں سے نشانہ لیتے اور تیر چلاتے تھے،
تموجن اب اپنے باپ کی سرداری چھیننے والوں کے درپے ہو گیا اس نے قبیلے کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی اور اپنی سرداری میں انہیں امان دینے کا وعدہ کیا، کچھ تو اس کی بات مان گئے اور کچھ نے مزاحمت کی لیکن جنہوں نے مزاحمت کی اس نے ان کا تیاپانچا کر کے رکھ دیا،
وہ کسی غدار کو زندہ نہیں چھوڑتا تھا،
اس نے ارادہ کیا کہ وہ اب تمام قبائل کو متحد کرے گا چنانچہ اس نے مختلف قبائل کے سرداروں کو اپنے قبیلے میں ایک دعوت پر مدعو کیا جنہوں نے اس سے اتفاق کیا اور جنہوں نے نہیں بھی کیا ان کو بھی اپنی باتوں سے قائل کرلیا لیکن جنہوں نے اس کی ایک نہ مانی اس نے انکا برا حشر کیا جس ظلم اور سفاکیت سے آج وہ پہچاناجاتا ہے،
ان کارستانیوں کو دیکھ کر اور اس کی باتیں سن کر مختلف قبائل اس کے جھنڈے تلے جمع ہونا شروع ہوگئے اس نے ان سے کہا کہ میں تم لوگوں کو یہ پوری دنیا دوں گا جیسے چاہو اور جہاں چاہو رہو اور جو چیز تمہیں اچھی لگے اسے حاصل کرو۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ تھا اور مسئلہ اس کے بچپن کا دوست جموکا تھا۔منگول اپنے سردار کو خان کا خطاب دیتے تھے اور اب کیونکہ تموجن نے تمام قبائل کو اپنے ساتھ مل جانے کی دعوت دی تھی لیکن وہیں پہ دوسری طرف اس کا دوست بھی منگولوں کا خاقان بننا چاہتا تھا۔
خاقان منگولوں میں سارے سرداروں سے بڑے سردار کو کہتے تھے لیکن اس وقت تک انہیں کوئی خاقان نہیں مل سکا تھا جو تمام قبیلوں کی نمائندگی کرتا،اب تمام قبیلوں میں اتحاد قائم ہو رہا تھا اور دونوں دوست اپنی اپنی فوج تیار کر رہے تھے، ایک دوسرے کے ساتھ لڑنا جھگڑنا بھی شروع کر دیا تھا لیکن فیصلہ کن جنگ کرنا ضروری تھا۔ تموجن نے اپنے دوست جموکا کو اپنی سرداری تسلیم کرنے اور اس کےتابع ہوکر لڑنےکیلئے پیغام بھیجا اس نےلکھا کہ اس قوم کا مقدر میں ہوں اور میری کمان میں تم لڑو تو تمہارے لئے اچھا ہوگا ورنہ دو سورج ایک ساتھ نہیں چمک سکتے،
اس کی اس بات پر جموکا نے جواب دیا کہ میں وہی ہوں جس کی مدد سے آج تم اس مقام پر ہو اور یاد کرو وہ دن جب تمہاری بیوی کی واپسی کیلئے میں نے تمہاری مدد کی تمہاری سرداری واپس دلوانے کے لیے بھی میں تمہارے ساتھ کھڑا رہا لیکن آج تم مجھے دھمکی دے رہے ہو۔ اگر تم میرے ساتھ پنجہ آزمائی کرنا چاہتے ہو تو یہ تم کر گزرو،
چنانچہ تموجن نے اپنی فوج کو جموکا کے ساتھ جنگ کیلئے تیار کیا،
اور بچپن کے دونوں دوست آج ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے، کہا جاتا ہے کہ ان دونوں نے بچپن میں ایک دوسرے کے ہاتھ پر خون بہایا اور پھر دونوں نے ہاتھ سے ہاتھ ملایا اور ایک دوسرے سے کہا کہ آج کے بعد ہم ایک دوسرے کے خونی بھائی ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک تھالی میں کھاتے تھے اور ایک ہی بستر پر سوتے۔
مگر اب فیصلہ کن جنگ شروع ہو گئی پہلے تو دونوں طرف کے سپاہی دیدہ دلیری کے ساتھ ایک دوسرے سے لڑتے رہے لیکن نتیجہ جموکا کی گرفتاری کی صورت میں نکلا چناچہ تموجن جموکا کو اپنے خیمے میں لے گیا اور وہاں اس کو کھانا کھلایا اور اپنے دوست سے پوچھنے لگا اگر میں ایسے تمہارے پاس گرفتار ہو جاتا تو بتاؤ تم میرے ساتھ کیا سلوک کرتے،
جموکا نے جواب دیا کہ وہ اسے مار دیتا کبھی زندہ نا چھوڑتا،
تموجن نے کہا تم اب خود ہی بتاؤ میں تمارے ساتھ کیا سلوک کروں؟ اس نے کہا مجھے مار دو مجھے مار دو اگر میں زندہ رہا تو تم سے اس کا حساب لوں گا۔
تموجن نے اسے کمان کی تار سے گلا گھونٹ کر مار ڈالا۔
تموجن چاہتا تھا کہ وہ اس کے خونی بھائی کا خون نہیں بہانا چاہتا، لیکن بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ تموجن نے جموکا کی لاش کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کروائے اور پھر اسے جنگل میں پھینک دیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ اپنی سفاکیت اور بربریت کی وجہ سے مشہور تھا۔
اب اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی تھی۔ اس نے دیگر قبائل کو پھر مدعو کیا اور اپنی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ چین کے سرحدی علاقوں پر تموجن نے بہت سے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا یہ لوگ چینی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے اور منگولوں کے قبیلوں میں لوٹ مار بھی کیا کرتے تھے،
تموجن کے اس اقدام کو دیکھتے ہوئے چینی بادشاہ نے اس پر نوازشات کیں اور اسے چینی سرحد کا کنٹرول سنبھالنے کے لئے سرحدی کمانڈر بننے کی پیشکش کی لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ جسے وہ معمولی سرحدی کمانڈر بنا رہا ہے وہ عنقریب ان کی سلطنت تباہ کر دے گا۔ وقت گزرتا گیا اور تموجن کے لشکروں میں اضافہ ہوتا گیا،
لیکن ایک دن وہ اچانک غائب ہو گیا اور سب لوگ حیرت زدہ ہو گئے کہ ان کا سردار اچانک گیا تو کہاں گیا ؟
کہا جاتا ہے کہ دو / تین دن بعد وہ اپنے قبیلے میں لوٹا اور بہت خوش تھا تمام لوگوں کو جمع کیا گیا اور اس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس کے خدا نے اسے بشارت دی ہے کہ وہ پوری دنیاپر حکومت کرے گا۔ تم لوگ تیار ہو جاؤ یہ دنیا تمہاری ہے اور تم اس کے حکمران ہو،
یہ سن کر تمام لوگ ہش ہش کر اٹھے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یہی ہے وہ جو ہماری طاقت میں اضافہ کرے گا،
تموجن اب چنگیز خان کا روپ دھار چکا تھا۔ اور سب سے پہلے اس نے اپنے ہنسائے ملک چین پر یلغار کرنے کی منصوبہ بندی کی،
لیکن چینیوں کے پاس اسلحہ تھا اونچی اونچی عمارتیں تھیں لمبی چوڑی دیواریں تھیں یہ سب کیسے ممکن تھا؟ اور اس نے ایسا کیوں سوچا تھا کہ وہ یہ سب کر سکتا ہے؟
ان کے پاس گھوڑے تلواروں تیروں کے سوا کسی قسم کا کوئی اور ہتھیار نہ تھا جو چینی سلطنت سے مقابلہ کرسکتا اور ان سے ان کا ملک چھین سکتا،
چنانچہ یہ سب کرنے کے لئے بھی اس کے پاس منصوبہ تھا، وہ اپنی عقل کو استعمال کرتا اور یلغار کر دیتا۔ اس نے طرح طرح کے منصوبے بنائے اور منصوبوں پر عمل کرتے ہوئے اس نے چینی شہروں کے محاصرے کئے بھوک پیاس سے تڑپتے چینی شہری آخرکار شہر سے باہر نکلتے تو منگول شہر میں داخل ہو جاتے اور شہر تہس نہس کر دیتے ۔یہ منگول اپنا خوف اور دہشت پھیلانے کیلئے حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرتے شہر میں موجود کیڑے مکوڑوں تک کو مار دیتے مردوں کے سر اڑا دیتے۔ عورتوں کو اپنے قبضے میں کر لیتے اور شہر کی خوب لوٹ مار کرتے اور جب شہر کو لوٹ لیتے اور تمام جانداروں کو قتل کر دیتےتو شہر کو آگ لگا دیتے ،
ان کی اس سفاکیت اور بربریت نے دنیا کی باقی اقوام کو خوف میں مبتلا کر دیا۔
سن 1300ء کے لگ‌بھگ منگولوں کی سلطنت میں شگاف پڑنے لگے۔‏
ایشیا اور یورپ پر منگول ایک آندھی کی طرح آئے،‏ تھوڑے ہی عرصے کے لئے زوروں پر رہے اور پھر آندھی کی طرح جلد ہی تھم گئے۔‏
مشہور ہے نا کہ، "ظلم جب حد بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے”

@Imran1Khaan

Leave a reply