انتہا پسندی اوراس کا سدِباب . تحریر : سعد طارق

0
104

انتہاپسندی ایک ایسی دماغی کیفیت نام ہے جس میں کوئی انسان ہر چیز اور ہر واقعہ کو ایک ہی زاویہ میں دیکھے اور اختلاف رائے کو بالکل برداشت نہ کرے۔ کسی بھی معاشرے میں انتہاپسندی کا وجود وہاں کے لوگوں کو دنیا و آخرت کی رسوائی کا مستحق بنا دیتا ہے۔ اگرچہ تاریخ انسانی کے آغاز سے ہی انتہا پسندی کا بھی آغاز ہو گیا تھا، جب اللّٰہ کے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السّلام کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو حسد کی بناء پر قتل کیا۔ ہر نبی کے دور میں مذہبی و نظریاتی اختلافات تشدد کا باعث بنتے رہے ۔ کبھی اللّٰہ کے رسولوں کی توہین ہوئی بعض دفعہ نبیوں کے ماننے والوں کو بھی ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا۔ بنی اسرائیل نے تو ایک ایک دن میں کئی انبیاء کو قتل کیا۔، حتی کہ لوگوں نے اس بناء پر حضرت محمد صلی اللّٰہ وآلہ وسلّم کو اس حد تک اذیتیں دیں کہ آپ صلی اللّٰہ وآلہ وسلّم نے فرمایا” اتنا کسی نبی کو نہیں ستایا گیا جتنا مجھے ستایا گیا۔”

پس معلوم ہوا ہے کہ انسان ہر دور میں انتہا پسندی کا شکار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی معاشرے میں مختلف الخیال لوگوں نے فکری اختلاف کو ذاتی اختلاف میں تبدیل کیا، اپنی بات کو دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے تمام اخلاقی حدود کو عبور
کر کے معاشرتی اقدار کو اپنے پاؤں تلے روند دیا۔ انتہا پسندی معاشرے کے امن و سکون کو غارت کر دیتی ہے۔کسی بھی معاشرے میں انتہا پسندی کے بڑھنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

معاشرے میں انتہا پسندی کے فروغ کے لیے سب سے بڑا ہاتھ معاشی صورتحال کا ہے ۔ تعلیم کو کسی بھی معاشرے میں قوم کی فلاح و بہبود کے لیے لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ تعلیم کی اہمیت کے لیے ایک ہی مثال کافی ہے کہ جب اللّٰہ نے اپنی محبوب ہستی حضرت محمد صلی اللّٰہ وآلہ وسلّم کو پہلی وحی بھیجی تو وہ سارے علم و تعلیم پر تھی۔

تعلیم و قلم سے انکار نہیں لیکن جس ملک کی 28 فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں ، وہاں والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے کیسے بھیج سکتے ہیں۔ لہٰذا بچوں کو ابتدائی تعلیم کے لیے مدارس میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اگرچہ ہمارے بیشتر دینی مدارس دین کی فلاح و بہبود کے کاموں میں مصروف لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بہت سے دینی مدارس ملک میں انتہا پسندی کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ دینی مدارس پر چھاپے مارے جاتے ہیں جہاں سے اسلحہ اور انتہا پسندی کو فروغ دینے والے لڑیچر برآمد ہوتے ہیں۔

ہمارے حکمران اور ریاست گزشتہ کئی دہائیوں سے جارحانہ رہی ہے۔ اس تعلیمی پالیسی کے زیر اثر تیار والی نسل کو وہ بطور ایندھن استعمال کرتے رہے ہیں۔تنگ نظری، اپنے مذہبی حریفوں سے نفرت،عدم برداشت جیسی عادتیں ہمارے مزاج کا حصہ بنتی رہیں۔ آج بھی پاکستان کا نظام تعلیم ایسا کوئی کردار ادا کرنے میں ناکام ہے کہ جس میں انسان کو سماجی شعور اور انسانی رویے فروغ پا سکیں۔ آج بھی ہمارا نصاب تعلیم رواداری ، انسان دوستی اور مسلمہ انسانی اقدار پر خاموش ہے اور ہم خطے میں امن ، سلامتی اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ آج بھی ہمارے نصاب تعلیم فرسودہ ہے۔

انتہا پسندی کی ایک اہم قانون کی عملداری نہ ہونا بھی ہے ۔ کسی بھی معاشرے میں قوانین دراصل معاشرتی جرائم کی پیشگی روک تھام کے لیے بنائے جاتے ہیں اگر اس کے باوجود کوئی جرم کر بھی لے تو اسے قانون کی مطابق سزا دی جاتی ہے ۔ اگر کسی معاشرے میں قانون کی پاسداری نہ ہو تو وہاں انتہاپسندی کا فروغ یقینی ہوتا ہے ۔ایسے معاشرے میں ظالم طاقتور اور مظلوم کمزور ہوتا ہے۔
انتہا پسندی کی ایک اور اہم وجہ مذہبی ،لسانی اختلاف کو رنگ دے نفرتوں کو فروغ دیا گیا۔ جو رسول اللہ صلی اللّٰہ وآلہ وسلّم رحمت بنا کر بھیجے گئے، انہیں کی نام پر مذہبی اکثریتی طبقے کی طرف سے بعض اوقات اقلیتوں کے حقوق کو بھی روند دیا جاتا ہے ۔ ان کی عبادت گاہوں اور انسانوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ انتہا پسندی کے اسں تدارک سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام الناس کو شعور و آگہی دی جائے ۔ مختلف مذاہب ، لسانی اور نسلی سے تعلق رکھنے والے والوں کے مابین بامقصد مباحث کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ آپس میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کریں ۔

رشوت اور میرٹ کا قتل انتہا پسندی کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کی وجہ نوجوان مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں ، اور وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کسی انتہا پسندی کے گروپ میں شامل ہو کے اپنی محرومیوں کا ازالہ کریں۔ انتہا پسندی کسی مخصوص طبقے تک محدود نہیں بلکہ معاشرے کے ہر طبقے میں موجود ہے۔ ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان کے کارکنان ذرا بھی اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتے ۔ ان سیاسی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ ملک کے نوجوانوں کی اکثریت ان کی حامی ہے ۔ اگر ایسا ہے تو ہمارے نوجوان تہذیب کے دائرے سے کیوں نکل رہے ہیں؟ کیونکہ نوجوانوں کی اکثریت استحصال کا شکار ہیں اور جب کبھی کسی نے ان کو تبدیلی کا خواب دیکھایا تو وہ اس کی طرف نکل پڑتے ہیں۔

اگر ہم معاشرے کو انتہا پسندی سے پاک کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو از سر نو مرتب کرنا ہو گا اور اس میں ایسے ابواب شامل کرنے ہوں گے جس میں انتہا پسندی سے بچنے کے اصول شامل ہوں ۔ عرض یہ کہ اگر ہم سب مل کر انتہا پسندی تدارک کے لیے صدق نیت سے اقدامات کریں تو یقیناً ہر لمحہ اللّٰہ کی مدد کے حقدار ٹھہریں گے کیونکہ اللّٰہ نے سورہ مبارکہ نجم کی آیت مبارکہ 39 میں ارشاد فرمایا ہے کہ ” اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔

@SaadTariqPTI

Leave a reply