احتجاج اور اسلام پسند طبقہ . تحریر: وقاص رضوی جٹ

0
50

اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑاٸی جاۓ تو یہ بات واضح ہےکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی قوانین کےنفاذ اور اسلامی شعاٸر کی حفاظت کےحوالےسےہر عشرےمیں ایک یا دو منظم اور بااثر تحریکیں چلتی رہی ہیں۔ چاہے 1950کی دہاٸی ہو جب 1953میں قادیانیوں کیخلاف چلنےوالی تحریک سےلیکر 2017میں ختم نبوت ﷺ کےقانون میں تبدیلی کیخلاف چلنےوالی تحریک تک کہیں نا کہیں اسلام پسند طبقہ اپنےمطالبات منوانےکیلیے احتجاج کاسہارا لیتارہاہے۔

اگرمذہبی جماعتوں کےاحتجاج پرغور کریں تو یہ بات واضح نظر آتی ہےکہ انہوں نےاپنےمطالبات منوانےکیلیےاحتجاج کاراستہ اپنایااور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔مگر سوال یہ ہےکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی قوانین اور اسلامی شعاٸر کی حفاظت کیلیےاحتجاج کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟دوسرا سوال یہ پیدا ہوتاہےکہ مختلف ادوار میں حکومتیں اسلامی جماعتوں کیخلاف متشدد رویہ کیوں اپناتی ہیں؟تیسرا سوال یہ ہےکہ اسلامی جماعتیں جن کےپاس بہت زیادہ سٹریٹ پاور ہونےکےبعدآج تک اقتدار میں نہیں آ سکیں؟
ان تمام سوالوں کےجواب ڈھونڈنےکیلیے پاکستان میں تعلیمی نظام کوسمجھناضروری ہے۔اس وقت پاکستان میں تین قسم کےتعلیمی نظام موجود ہے۔ایک تعلیم نظام وہ ہے جس میں اشرافیہ کےبچےتعلیم حاصل کرتےہیں۔ان تعلیمی اداروں میں سرِ فہرست ایچیسن کالج لاہور ہے۔اس کالج کاقومی سیاست میں کردار کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ موجودہ وزیراعظم عمران خان وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی وزیرِدفاع پرویزخٹک سمیت بہت سےوفاقی و صوباٸی وزرا ایچیسن کےپڑھےہوۓ ہیں ایچیسن کےعلاوہ دیگر اداروں میں LUMSیونیورسٹی لارینس کالج مری سمیت بیکن ہاٶس اور لاہور گرامر سکول شامل ہیں جبکہ غیرملکی گریجوایٹس بھی شامل ہیں جن میں بلاول بھٹو سرفہرست ہیں درج بالاتعلیمی اداروں میں صرف جدید تعلیم پرتوجہ دی جاتی ہےاور سیکولرزم کی ترویج کی جاتی ہے۔ اس لیےجب یہ لوگ نظام پرقابض ہونگے جو سیکولراداروں سےپڑھےہونگےتویہ سیکولرزم کی ترویج کریں گے ناکہ اسلام کو۔دوسرا طبقہ متوسط طبقہ جو اسلام کےقریب توہوتےہیں مگر اپنی روزی روٹی کےچکرسےباہر نہیں نکل پاتےاسلام بماقبلہ سیکولرزم کی جنگ میں عملاً شریک نہیں ہوتے۔اس لیے انہیں ملکی حالات سےخاص غرض نہیں ہوتی۔

جبکہ تیسرا طبقہ مذہبی طبقہ ہے جوحکومت کی غیراسلامی قوانین اور غیرشریعی پالیسیوں کےخلاف نکلتےہیں۔مگر چونکہ نظام پر سیکولر اشرافیہ کا قبضہ ہےاس لیےیہ اپنےمطالبات نہیں منوا پاتےاور مجبوراً پہیہ جام ہڑتال کرتےہیں اور سیکولر اشرافیہ کی حکومت مجبوراً انکےمطالبات وقتی طور پر مان لیتی ہے۔ مگر بعدمیں پھر کسی نا کسی موقع پہ سیکولر پاکیسیاں جاری رکھتی ہے۔
اب وقت آگیاہےکہ اسلام پسند طبقےکو نظام میں اپنےپنجے گاڑھنےچاہیں اورتمام اہم اداروں خاص کر ملٹری اسٹیبلشمنٹ ٗ سیاستٗ عدالتی نظام ٗ بیوروکریسی ٗ میڈیا اورصنعت و تجارت میں اپنے نوجوانوں کو شامل کرنےکیلیے جدید تعلیم پرتوجہ دینی چاہیے۔اگر ایسا نہ کیاگیا تولبرل اور سیکولر طبقہ جوپہلےہی اتنامظبوط ہوچکاہے اسے روکناناممکن ہوجاۓگا۔

@waqasRizviJutt

Leave a reply