اعمال کا دارومدار نیتوں پر تحریر: تیمور خان

تمام اعمال اور تمام عبادات بلکہ مسلمانوں کے تمام معاملات میں نیت اور اخلاص کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے، اور وہ اہم چیز قران کریم اور احادیث میں بھی بیان کی گئی ہے، جو  ایک مسلمان کے اخلاص کے ساتھ نیت اور ارادہ ہے، مسلمان کو یہ بتایا گیا ہے کہ یہ جب بھی کوئی کام کیا کرے گا، چاہیے وہ کام خالص عبادات میں سے ہو یا دنیاوی اغراض اور مقاصد کے لئے ہو، جس مقصد کے لئے جو کام کیا جائے اس میں مسلمان اپنی نیت کو خالص رکھے اگر وہ اپنی نیت کو خالص رکھے گا تو اس نیت کے اخلاص کی وجہ سے اس مسلمان کو دنیاوی اور اخروی بہت سارے ثمرات اور فوائد حاصل ہونگے، سرکارِ دوعالم ﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورت انعام میں یہی ارشاد فرمایا٫٫ اے میرے حبیب  ﷺ آپ فرما دیجئے میری نماز اور میری قربانی اور میری ساری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لئے ہے، جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور اس کی شان یہ ہے کہ اس کا کوئی شریک نہیں اور آپ فرما دیجئے کہ مجھے اسی طرح اسی چیز کا حکم دیا گیا ہے کہ میں اپنے نیت کو خالص رکھوں یہاں تک کہ میری موت اور زندگی خالص اللہ کہ لئے ہو، اور میں سب سے پہلے اللہ کی اطاعت کرنے والا ہوں، قرآن کریم فرقان حمید میں بہت جگہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو ارشاد فرمایا کہ آپ یوں کہیے یا آپ یوں مجھ سے دعا منگیئے، کی اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما، تو جس چیز کا حکم اللہ اپنے نبی کو دے اور مطالبہ یہ ہو کہ تم اللہ سے یہ چیز مانگو تو وہ چیز نہایت ہی اہمیت کہ حامل ہوتی ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ احلاص نیت جب انسان ایک کام کرتا ہے اپنی زندگی اللہ کے لئے گزراتا ہے اپنے معاملات اللہ کے لئے وہ سر انجام دیتا ہے یہاں تک اس کی موت بھی اللہ کے لئے ہوتی ہے تو یہ اتنی اہمیت کے حامل ہیں کہ اللہ نے اپنے حبیب ﷺ کو اس چیز کا ارشاد فرمایا،

اسی لئے سرکارِ دوعالم ﷺ نے بھی اپنے احادیثِ طیبہ میں اس چیز کو بنیاد فرما کر ارشاد فرمایا اور یہاں تک محدیثین بھی اپنی کتابوں کے ابتدا میں لکتے  ہیں تاکہ کوئی بھی انسان دین سیکے اور دنیاوی معاملات کے لئے دین سے شعریت سے  رہنمائی حاصل کرے تاکہ اس کی نیت خالص ہو، ٫٫ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا اعمال کی قبولیت کا دارومدار یہ نیتوں پر ہے، جس شخص کے نیت خالص ہوگی اس شخص کی عبادت اتنا ہی اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو گا قرآن کریم میں اللہ نے فرمایا کہ جو ایک نیکی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے سات سو گنا تک اجر دیتا ہے،اور اللہ جیسے چاہتا ہے اسے اس سے بھی دگنا کر کے دیتا ہے اور کبھی کبھی اللہ یہ بھی فرماتا ہے کہ ایک نیکی کا اجر اللہ بے حساب بھی دیتا ہے، اب ان تمام احکامات اور آیاتوں کا دارومدار انسان کے نیتوں پر منحصر ہے، اگر ایک شخص نیکی کرتا ہے اگر نیکی دنیاوی معاملات یا اللہ کی رضامندی کے لئے ہو تو اس کا دس گنا اجر دے دیا جاتا ہے اب اس کا احلاص جتنا زیادہ ہوگا تو اس کے اخلاص کے مطابق اس کو اتنا ہی اجر ملے گا،

تو اسی لئے نیت جو ہے یہ ایک مومن اور مسلمان کے تمام اعمال کا اصل ہے جب ہم گھر سے مسجد کے لئے نکلتے ہیں تو ہماری نیت یہ ہوتی ہے کہ ہم مسجد میں نماز کے لئے اللہ کو راضی کرنے کے لئے جاتے ہیں، اب یہ ارادہ کامل ہوتا اس نیت کا اجر بھی سو گنا ہوگا اگر اتفاقاً ایک انسان گھر سے مسجد کی طرف نکلا اور راستے میں یہ کسی کام کی طرف چلا گیا تو تب بھی اللہ اس کو پورا اجر دیگا کیوں کہ اس کی نیت مسجد جانے کا تھا، اسی لئے محدیثین فرماتے ہیں کہ جب بھی کسی کام کے نیت کریں تو اس نیت کے ساتھ اور بھی اچھے کام کے نیت کر لیا کریں اگر وہ کام ہوا بھی نہیں تو بھی اس کام کا اجر ملے گا، ایک مسجد جاتے ہوئے کئی نیک نیتیں جمع ہو سکتی ہیں اب ایک شخص گھر سے نکلتا ہے اور اسے کوئی ایسا کام نہیں ملا جس کی اس  نے نیت کی تھی  تب بھی اس کو پورا کا پورا ثواب جتنی بھی نیتیں اس نے کی تھی اسے ملے گا، اسی لئے سرکارِ دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے جو بھی عمل انسان کرتا ہے اس کی نیتوں کا دیکھا جائے گا، اب اللہ کے ہاں نیت معتبر ہے اللہ کے ہاں ظاہری کام معتبر نہیں ہے کیوں کہ اس نے تو نیت کی تھی کہ راستے میں اگر کوئی شخص آیا میں اسے سلام کروں گا راستے میں اسے کوئی شخص ملا ہی نہیں تو بھی اس کو اجر ملا، 

اسی لئے ایک دوسرے حدیث میں سرکارِ دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ مومن کی نیت اس کے عمل سے بہت بہتر  ہے اب ایک انسان نے تو عمل کی تھی کہ گھر سے مسجد کی طرف جاتے وقت میں راستے میں ہر اچھے اعمال کروں گا لیکن اس نے وہ اعمال کیے ہی نہیں اسکو موقع ہی نہیں ملا اب اس نے صرف نیت کی عمل اس نے کیا نہیں گویا کہ اس نے یہ تمام کام کر لیے حضور نے فرمایا یہ وہ چیز ہے کہ جس کی نیت کا بھی اس کو اجر مل جاتا ہے، 

لیکن اس کے بر خلاف ایک شخص کام تو بڑے نیک کرتا ہے لیکن نیت اس کی خالص نہیں ہے نیت اللہ کی رضا نہیں ہے تو یاد رکھیں یہ نیک کام بھی اس کے منہ پہ مارا جائے گا، ایک شخص ہے وہ نماز اللہ کی رضا کے لئے پڑھتا ہے تو اس کو نماز پڑھنے کا اجر دیا جائے گا، لیکن ایک انسان نماز پڑھتا ہے اس کی نے نیت بھی کی لیکن وہ نماز اس لئے پڑھتا ہے کہ لوگ اس سے نمازی کہیں تو فرشتے نماز اس کے منہ پہ ماریں گے کہ اسے نماز کو اللہ کی کوئی ضرورت نہیں اسی طرح ہماری زندگی کے جتنے بھی نیک اعمال ہیں ان تمام کا دارومدار نیتوں پر ہے،

احادیث مبارکہ میں آتا ہے قیامت کے دن ایک شہید کو اٹھایا جائے گا بخآری شریف کی حدیث ہے اس شہید کو اللہ تعالیٰ کہے گا اے بندے میں نے دنیا میں تجھے یہ نعمت دی تھی فلاں نعمت دی تھی وہ اقرار کرے گا ہاں میرے رب تو نے یہ سب کچھہ دی تھی اللہ پوچھے گا پھر تو نے ان نعمتوں کے بدلے میرے لئے کیا کیا، تو یہ شہید کہے گا اے میرے پروردگار میں نے تیرے دین کی سربلندی کے لئے اپنے جان کا نذرانہ پیش کیا، اللہ فرمائے گا نہیں نہیں تو نے اس لئے جان قربان نہیں کی کہ میرا دین سربلند ہو بلکہ تو نے اس لئے جان قربان کی کہ لوگ آپ کو بہادر اور شہید کہیں، جا تجھے دنیا میں تمغے بھی مل گئی تیری وا وا بھی ہو گئی، اے فرشتوں اس کو جہنم میں لے جاؤ، اب وہ شہید اس کی نیت خالص تھی اور اس کی نیت اللہ کی رضا تھی اس کے خون کے قطرے گرنے سے پہلے اللہ نے اس کے گناہ معاف کر دینے تھے اور اس کے روح نکلتے وقت اللہ کا دیدار اس کو نصیب ہونا تھا لیکن وہی شہید عمل تو وہی ہوا اس کے خون کے قطرے گرنے سے پہلے اللہ نے اس کے گناہ معاف کر دینے تھے اور اس کے روح نکلتے وقت اللہ کا دیدار اس کو نصیب ہونا تھا لیکن اس کے نیت میں فرق تھا تو الٹا وہ جہنم میں داخل ہوا،

اسی لئے تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان جو  بھی عمال کرے چاہے وہ دنیا کے لئے ہو  یا چاہے وہ  آخرت کے لئے ہو ہر عمل میں  اس کی نیت خالص ہونی چاہیے اسی لئے نیت اپنی خالص کر لیں ہم سب کو چاہئے کہ اپنی نیتیں خالص کر لیں عمل بے شک اپنے ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کر رہے ہیں لیکن نیت وہ اللہ کی رضا ہو اور جب اللہ رضا ہوگا تو اس کے اجر ہمیں بے شمار ملیں گے اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

@ImTaimurKhan

Comments are closed.