ٹوئیٹر ہینڈل: @shehryarsialvi

پاکستان اسلامی نظریاتی مملکت خداداد ہے۔ ہماری نئی نسل کو بھی تحریک پاکستان کے مقاصد سے آگاہ رہنا چاہیئے تاکہ وہ تعمیر پاکستان کیلئے کوشاں رہے۔ آج پاکستان میں سے  بےسمت نظام تعلیم، شرم وحیاء کا خاتمہ، عریانی، فحاشی اور مادر پدر آزاد تہذیبی چلن نئی نسل اور ملک و ملت کیلئے بڑی تباہی، خطرات کے اشارے ہیں۔پاکستان قائد اعظم (رح)، علامہ اقبال( رح) اور مشاہیر پاکستان کے تصور کے مطابق صالح فکر اور نظریاتی پختگی کی ضرورت ہے۔

   قائد اعظم (رح) نے ملت پاکستان کیلئے نظریہ، ثقافت، تہذیب، اتحاد و یگانگت، درد مشترک اور قدر مشترک کیلئے شاندار راہ متعین کی لیکن آج نظام تعلیم، نظام ثقافت و معاشرت، تہذیب و اقدار کو فحاشی، بےحیائی اور مذہب بیزاری کیطرف پوری قوت سے دھکیلا جارہا ہے۔ جہاں بداخلاقی، نفس پرستی اور لذات جسمانی کی بندگی آخری حدوں کو چھو رہی ہو، جہاں مرد و خواتین، جوان و پیرعیش پرستی اور بےحیائی کے دلدادہ بنائے جارہے ہوں تو یہ قومی ہلاکت کے آثار ہیں۔ مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط نے عورتوں میں حسن کی نمائش، عریانی اور فواحش کو غیر معمولی ترقی دے دی ہے۔ اسلامی نظریاتی مملکت میں فیشن کے نام پر عریانیت پر مبنی کیٹواک، الیکٹرانک میڈیا پر بھرپور اور منہ زور تشہیر آخر نئی نسل کو کس آزادی سے روشناس کیا جارہا ہے؟ یہی طریقہ واردات مغربی قوموں کو قوت حیات کو گھن کیطرح کھا رہا ہے۔ یہ ایسا گھن ہے کہ جس قوم کو لگ جائے اس کا جینا محال ہوجاتا ہے۔

افراط و تفریط کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والی دنیا کو اگر عدل، سلامتی، باہمی احترام کا راستہ اگر کوئی دکھا سکتا ہے تو وہ مسلمان ہے جس کے پاس انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مسائل اور الجھنوں کے صحیح حل موجود ہیں لیکن تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ جن کے پاس حیاء، عزت و احترام، محبت و حدت کی روشنی کا چراغ ہے وہی خود اپنے اعمال کی خرابیوں کی بنیاد پر دوسروں کو راستہ دکھانے کی بجائے خود اندھوں کیطرح بھٹک رہے ہیں، جو قومیں بھٹک چکی ہیں، جن کی نسلیں بگڑ چکی ہیں، اسلامیان پاکستان ان بھٹکنے والوں کے پیچھے دوڑتے پھرتے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں، پاکستان بڑے مقاصد اور بڑی قربانیوں کیساتھ وجود میں آیا۔ آخر کب تک ہم بھٹکیں گے؟ بحیثیت انسان کوئلے کی چھت اور تاروں بھرے آسمان کا فرق محسوس کرنے سے کب تک انکار کرتے رہیں گے؟ اسلامی اخلاقیات میں حیاء کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ زندگی کا کوئی شعبہ اس سے الگ نہیں ہوسکتا۔ حیا، تمدن و معاشرت کو صحیح سمت اور عریانی و بےحیائی انسانی معراج کو زمین بوس ہی نہیں ذلت و بربادی سے دوچار کر دیتی ہے۔ اسلام کے تصور اخلاق کے مطابق تشکیل پانے والا معاشرہ، خاندان کی بقاء اور تحفظ پر توجہ مرکوز رکھتا ہے کیونکہ خاندان ہی تہذیبوں کی بنیادی اکائی ہے۔ اسلامی تعلیمات اخلاقی اور روحانی قدروں کی حامل اور دین میں اس حوالہ دے خاندان کا ادارہ ماضی اور حال کے درمیان اہم رابطہ اور بندھن ہے، اسلامی تعلیمات نوجوان نسل کی تربیت اور تنطیم کا اولین مکتب ہے، اقدار کی تعلیم، باہمی احترام و محبت، تفہیم و تعاون، حکم اور اطاعت جیسے اعمال اور اوصاف پر زور دیتا ہے جس سے متوازن مزاج افراد تیار ہوتے ہیں۔ اس سے ہی معاشرے کو استحکام ملتا ہے۔ مسلم خاندان پر فحاشی، بےحیائی، عریانیت، بدتہذیبی کے وار کے ذریعے اسے بےوقعت، بےوقار اور ذلیل کیا جارہا ہے تاکہ خاندان ٹوٹ پھوٹ جائیں۔ یہ روش دین اور ایمان کو لوگوں کے سماجی اور سیاسی امور سے بےدخل کردینا چاہتی ہے۔ 

آپ نے فرمایا: 

"جب عریانی اور فحاشی عام ہوجائے گی، تو لوگوں میں ایسی ایسی بیماریاں پیدا ہونگی، جنکے متعلق نہ تو تم نے پہلے کبھی سنا ہوگا اور نہ تمہارے آباو اجداد نے” ۔ عریانیت، برہنگی، نجی شخص اور تنہا ایک گناہ نہیں بلکہ متعدی اور کئی گناہوں کا اذیت ناک مجموعہ ہے۔ اللہ اور اسکے رسول کو ناراض کرنا ہے، بےحیائی، فحاشی اور بدکاری کو دعوت دینا ہے۔ معاشرہ میں گندگی، اخلاقی انارکی کو عام کرنا ہے۔ غرض عریانیت، نفسانی جذبات اخلاقی نوعیت کے تمام گناہوں میں بنیادی اور اولین کردار ادا کرتی ہے۔ 

گذشتہ اور قریبی عرصہ میں عریانیت، فحاشی کے خلاف ریاستوں  اور قانون نے تو کوئی سنگین اور سخت سزا تجویز نہیں کی لیکن ایک اور نقد سزا دریافت ہوئی ہے، سزا کیا ہے، موت کا پروانہ ہے۔ جیتے جی انسان مر جاتا ہے۔ معاشرہ اور برادری سے کٹ جاتا ہے۔ علیحدہ کردیا جاتا ہے، یہ قدرت کی گرفت ہے اور یہ سزا ایڈز ہے۔ 90ء کی دہائی میں اس مرض کی تشخیص کی گئی اسکے بعد سے ایڈز، ایچ آئی وی (HIV Positive) کی امراض مسلسل بڑھتی جارہی ہیں اور لاعلاج مرض ہے۔ اگر اس وقت دنیا میں ایڈز کا مرض پھیلنے کی رفتار برقرار رہی تو مجموعی طور پر پوری دنیا میں   2022ء تک ایڈز سے مرنے والوں کی تعداد 70 ملین تک پہنچ جائے گی۔ 

اس سنگین صورتحال میں تو عبرت یہ تھی کہ انسانوں کی آنکھیں کھل جاتیں اور رہنمایان قوم، پالیسی سازوں، میڈیا کی دنیا کے آقاوں کا مردہ ضمیر جاگ جاتا اور تمام مل کر فحاشی، بدتہذیبی، عریانیت، کے خاتمے کیلئے کمربستہ ہوجاتے، کم از کم اسلامیان پاکستان کیلئے اسلام کی سراپا رحمت تعلیمات کو اپنا لیا جاتا مگر یہ حیران کن حقیقت ہے کہ بےحیائی اور عریانیت کو تاریخ بنادینے کی آواز کوئی بلند نہیں کرتا، معاشرہ کو صاف ستھرا، پاکیزہ اور عریانیت سے محفوظ بنانے کی کوئی بات نہیں کرتا۔ دردناک اور عبرتناک بیماریوں سے نجات کیلئے اس کی خرابی کی جڑ کوختم کرنیکی آواز بلند نہیں ہوتی۔عریانیت، بےحیائی، بداخلاقی اور بدتہذیبی کا ماحول برقرار رکھنے اور بیماریوں سے بچنے کیلئے سدباب کی جو تجاویز دی جارہی ہیں یہ فریب، دھوکہ، اور مزید تباہی کا سبب ہیں۔ اس صورت حال سے نجات کا تو یہی طریقہ ہے کہ فکر لاحق ہو، احساس کی جڑیں گہری ہوں، بےحیائی، بداخلاقی، عریانیت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے دانش مندانہ، موثر اور کامیاب علاج یہ ہے کہ اس بربادی کی راہ کے قریب بھی نہ پھٹکا جائے، جو اسلوب جان لیوا ہیں، خاندان کی بربادی، انسانیت کی توہین اور دوسروں کے حقوق کی پامالی ہو۔ ایسے ارادوں اور عمل سے اجتناب اور کنارہ کشی اختیار کی جائے، اپنے گھرانوں اور اولادوں کو حق سے آشنا اور قرآن و سنت کی تعلیمات کا خوگر بنایا جائے۔ قرآن کی انسانیت نواز تعلیمات پر عمل کرنے کی بنیادوں پر اسلامی معاشرت کو اپنانے اور اختیار کرنیکی کوشش کی جائے۔ 

ملک میں آئین، قوانین، ذرائع ابلاغ کا ضابطہ، عریانیت، فحاشی، بدتہذیبی کے تدراک کی رہنمائی دیتے ہیں۔ عدالت عظمی میں ان قوانین پر عملدرآمد کے مسائل پر آئینی، قانونی پٹیشن زیر سماعت ہیں۔ عوام خود خاندانون کے سربراہ، حکمران، پالیسی ساز، قانون نافذ کرنیوالے ادارے، اور عدلیہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ فکر کریں، آگے بڑھیں، خاموشی توڑیں اور اس بڑھتی بربادی کا سدباب کریں اور نئی نسلوں اور قیام پاکستان کے مقاصد کو محفوظ بنائیں۔

Shares: