پینڈورہ پیپرز،وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں اہم فیصلے متوقع،وضاحتیں آنا بھی شروع

پینڈورہ-پیپرز،وزیراعظم-کی-زیرصدارت-اجلاس-میں-اہم-فیصلے-متوقع،وضاحتیں-آنا-بھی-شروع #Baaghi

پینڈورہ پیپرز،وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں اہم فیصلے متوقع،وضاحتیں آنا بھی شروع

پینڈورہ پیپرز، وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت آج اہم اجلاس ہو گا، وزیراعظم عمران خان نے وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور مشیر برائے احتساب کو بلا لیا

اجلاس میں وزیراعظم عمران خان پینڈورہ پیپرز کے حوالہ سے تحقیقات بارے فیصلہ کریں گے، اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی جانب سے جاری پنڈورا پیپرز کا خیرمقدم کیا تھا سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پروزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ پنڈورا پیپرز نے اشرافیہ کی ناجائز دولت کو بےنقاب کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنڈورا پیپرز میں شامل تمام پاکستانیوں کی تحقیقات کریں گے۔

انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی جانب سے جاری پنڈورا پیپرز میں وزیراعظم عمران خان کی ٹیم کے نام بھی شامل ہیں،پنڈورا پیپرز میں وزیرخزانہ شوکت ترین کی آف شور کمپنی جبکہ وفاقی وزیر مونس الٰہی اور سینیٹر فیصل واوڈا کی آف شور کمپنیاں سامنے آئیں پینڈورا پیپرز میں وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی عمر بختیار اور وزیراعظم عمران خان کے سابق معاون خصوصی وقار مسعود کے بیٹے کا نام بھی فہرست میں موجود ہے

پنجاب کے سینئر صوبائی وزیر پنجاب علیم خان نے کہا ہےان کی آف شور کمپنی اثاثہ جات میں ظاہر کی گئی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ اللہ کاشکر ہے کچھ غلط نہیں کیا ہے آفشور کمپنی15 سال سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ظاہر کیے گئے میرے اثاثہ جات میں پہلے سے ہی شامل ہے

انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی جانب سے جاری پنڈورا پیپرز میں کئی ملکی و غیر ملکی معروف سیاسی و غیر سیاسی شخصیات کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا ہے آف شور کمپنی کیا ہوتی ہیں، یہ کس قانونی حیثیت کی حامل ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہوتے ہیں ؟آف شور کمپنی ایسی فرم ہوتی ہے جو قانونی طور پر ان مقامات پر قائم کی جاتی ہے جہاں ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی ہو اور یہ سوال نہ پوچھا جائے کہ سرمایہ کاری کے لیے پیسہ کہاں سے آیا، ایسی کمپنیوں کی آڈٹ رپورٹ مانگی جاتی نہ ہی سالانہ ریٹرن ظاہر کیا جاتا ہے ،آف شور کمپنیوں میں پیسہ رکھنا غیر قانونی نہیں بلکہ پاکستانی پبلک آفس ہولڈر کیلئے آف شور اکاونٹس کو ڈیکلیئر کرنا لازمی ہے۔ان اکاونٹس کو ایف بی آر، اور ایس ای سی پی ڈیکلیئر کرنا ہوتا اور بھیجے ہوئے پیسے کی منی ٹریل دکھانی پڑتی ہے اراکین پارلیمنٹ کو ایف بی آر اورایس ای پی کے ساتھ الیکشن کمیشن میں اپنے اثاثاجات کی ڈیکلیئریش کے وقت بھی آف شور اکاونٹس کو ڈیکلیئر کرنا ہوتا ہے

ٹرین حادثہ معمولی نہیں تھا بلکہ…وفاقی وزیر ریلوے کے تہلکہ خیز انکشافات

سانحہ گھوٹکی ، دوماہ گزر گئے، زخمیوں کوانشورنس کی رقم نہ مل سکی ،

پاکستان ریلوے نے بھارت سے پکڑے جانے والے وارٹرافی انجن کا حلیہ ہی بگاڑ دیا

گھبرانے کی کوئی بات نہیں، فوج تعینات اور موبائل سروس بند کرنے کا شیخ رشید نے کیا اعلان

پاکستان کے خلاف وار فیئر قائم کرنے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ،شیخ رشید نے کیا بے نقاب

شہبازشریف کے خاندان میں وراثت کی لڑائی ہے، دم درود کرائیں، شیخ رشید

معر وف اینکر پرسن کامران خان نے پنڈورا پیپرز لیکس کو وزیراعظم عمران خان کا امتحان قرار دے دیا ۔ مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر انہوں نے کہا کہ پاناما پیپرز، پیراڈائز پیپر میں پینڈورا پیپرز سے کہیں زائد پاکستانیوں کی آف شور کمپنیز اثاثے ظاہر ہوئے ،ایسا ہی میڈیا شور غوغا ہوا قصوروار صرف نواز شریف خاندان ٹھہرا۔ کامران خان نے کہا کہ ایسے خاندان جن کی درجنوں آف شور کمپنیز پاناما پیپرز میں ظاہر ہوئیں کان پر جوں بھی نہیں رینگی،اب عمران خان کا امتحان ہے ۔

پنڈورا پیپرز میں مجموعی طور پر 200 سے زائد ممالک کی 29 ہزار سے زائد آف شور کمپنیوں کی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ پنڈورا پیپرز میں 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام بھی شامل ہیں جن میں موجودہ اور سابق وزرا، سابق جرنیل، بیورو کریٹس اور کاروباری شخصیات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پنڈورا پیپرز میں 45 ممالک کے 130 سے زائد ارب پتی افراد کا پردہ بھی فاش کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ اپریل 2016 میں آئی سی آئی جے کی تحقیق پاناما پیپرز کے نام سے سامنے آئی تھی جس نے دنیا میں تہلکہ مچادیا تھا۔پاناما پیپرز ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل تھے جس میں درجنوں سابق اور اس وقت کے سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی ‘آف شور’ کمپنیوں کا ریکارڈ موجود تھا۔

پاناما لیکس میں پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کا بھی آف شور کمپنیوں سے تعلق سامنے آیا تھا جس پر ان کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمات چلائے گئے تھے اور اسی وجہ سے نواز کو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔

@MumtaazAwan

Comments are closed.