جن و انسان ! تحریر سکندر علی

0
35

 

کائنات کی تخلیق سے قبل اللہ تعالی کا عرش العظيم پانی پر تھا

مگر یہ پانی کہاں پر تھا اور عرش معظم کہاں پر واقع تما ! یہ سوال اس لئے ذہن 

میں ابھرتا ہے کہ

جب زمین و آسمان اور تمام سیاراتی نظام وجود میں تھا ہی نہیں تو اس پانی کا وجود

کہاں تھا، یہ علم غیب ہے، اس کا علم صرف وحدہ لاشریک کو ہے جو اپنی ذات میں

کائنات کا خالق ہے اور وهو على كل شي عليم» بھی ہے لیکن انسانی ذہن

کا تجسس حس بیداری کے ساتھ مصروف عمل رہ کر جواب طلب کرتا ہے۔ (اس

سلسلے میں خاموشی بہتر ہے مزید گفتگو سے پر ہیز کرنا بہتر ہے )۔

کائنات کی تخلیق کے بعد تین متحرک مخلوقات، ملائکہ ، اجنتا اور انسان کی

حمایت کی گئی جن میں ملائکہ ( نوری مخلوق) کو

صرف اللہ سبحانہ کے تعلیم قدرت کو چلانے کے لئے اس کی اطاعت اور اس کے

حکم سے مخلوقات کی خدمت کے ساتھ ساتھ اس خالق اعظم کی حمد و ثناء اور

عبادات کرنے کیلئے مخصوس کیا جن کا قیام (یا موجودگی) آسانوں و زمین کے

اوپر اور درمیان میں کیا گیا تا کہ

اللہ خالق کائنات و مالک کائنات اور ملاقات کے درمیان رابطه و امور کو انجام

دے سکیں اور زمین پر خلق اللہ کی کارکردگی اور اعمال میں حکم اللہ سے مددمعاونت کر کے نظم و ضبط قائم رکھ سکیں لیکن

ہر دو مخلوقات جن وانس اپنے وجودوں کے ساتھ زمین پر بسائی گئیں یا پیدا 

کی گئیں تا کہ

زندگی کی رونق کے ساتھ زینت دنیا بن سکیں اور وجود زمین کی وجہ بن سکیں ۔ان

میں مخلوق جن کو نظر نہ آنے والی مخلوق قرار دے کر آگ سے نہیں بلکہ ان

کے سب سے بلند شعلے کی لو سے پیدا کیا، جہاں سے دخان (دھواں ) پیدا ہوتا

ہے اس لئے

جنات دھواں بن کر انسان میں داخل ہوجاتے ہیں اور نظروں سے پوشیدہ رہتے

میں

اس بات کی شہادت میں کہ

جنات دھواں بن کر کہیں بھی داخل ہو سکتے ہیں میراعینی تجر بہ موجود ہے۔ میرے

تایا مرحوم اپنے وقت کے زبردست عامل تھے وہ انسانوں پر آئے ہوئے جنات و

جادو اتارا کرتے تھے (صرف خلق اللہ کی خدمت کیلئے کئی مرتبہ انہوں نے

ایسے مواقع پر مجھے اپنے ساتھ بٹھا کر عملی طور پر یہ کام انجام دیئے اور پھر ان

بات کو لوگوں میں بند کر کے مجھے دکھایا جو دھوئیں کی شکل میں ہوتے تھے ۔ یہ

وشوں کبھی سفید رنگ کا ہوتا تھا بھی نلکے بھورے رنگ کا اور بھی (بلکہ اکثر)

گرتے بال کالے رنگ کا جو بل کھاتا ہوا بول میں جا کر گھومتا رہتا تھا پھر وہ ان

بالوں کو زمین میں فن کر دیا کرتے تھے یہ عینی شهادتی تجر به قرآن و الفرقان کی

آلات کی تصدیق کرتا ہے۔

جنات انسانی نظروں سے نظر نہ آنے والی مخلوق حقیقت میں موجود ہے۔ نظرنہآنے کے باوجود وہ مجسم صداقت ہیں اور دنیا میں انسانوں کی طرح پھیلے ہوئے

ہیں یہ ہر وقت اور ہر جگہ موجود رہتے ہیں مگر

اپنی نظر نہ آنے والی کیفیات سے نظر نہ آنے سے قاصر رہتے ہیں صرف صاحب

بصیرت انسان انہیں دیکھ سکتے ہیں یا پھر یہ خود جب چاہیں اپنی رضا سے ظاہر ہو

سکتے ہیں ۔

اس سلسلے میں اگر یہ عاجز اپنے دادا حافظ سید حامد علی اور نانا حافظ ولی محمد کا تذکرہ

بطور خاص شہادت یا گواہی کے لئے پیش کرے تو نا مناسب نہیں ہوگا اس بات

کی تصدیق میری والدہ اور دوسرے بزرگ حضرات کرتے رہے ہیں ۔ عرض ہے

کہ میرے دادا اور نانا جو اپنے وقت کے پائے کے عالم اور دین دار تھے جب

فجر کی نماز کی امامت کیا کرتے تھے تو ان کے شاگردوں اور دوسرے نمازیوں کی

تعداد کم ہوتی تھی مگر آمین ( سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد) کی آواز بہت زیادہ

افراد کی ہوتی تھی۔ جب شاگردو حضرات نے ان دونوں بزرگوں یا استادوں

سے دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ آپ سب کے ساتھ مسلمان جنات بھی

باجماعت نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ ان کی آوازیں ہوتی ہیں، میرے دادا حافظ

سید حامد علی اور نانا حافظ ولی محمد نے اپنے پیچھے بہت سے قابل شاگرد چھوڑے

جن میں مشہور وقت اور حکمت کی دنیا کے شہرت پائے انسانوں اور جنوں کے کیم

فیض جناب حکیم اجمل خان اور ان کے شاگرد کیم محمد احمد شامل تھے۔

میرے قارئین ، آپ سب کے شوق مطالعہ اور میری کتابوں سے محبت میں ہی

میری تحریروں کی وقعت اور اہمیت کے ساتھ میری عظمت ہے اس مقام پر اپنے

دونوں جد کی بزرگوں سے متعلق دو باتیں فردا فردا عرض کرنا چاہتا ہوں جو اپنی

جگہ پر بہت توقیر کی حامل ہیں ۔اول بات میرے دارا حافظ سید علی کی ہے جن کی دینی خدمات کے علاوه

سماجی خدمات کے اعتراف میں اس وقت کی انگریز حکومت نے ان کیلئے دو اعزازت

مخصوص کئے جن کیلئے برطانیہ کےبادشاہ جارج پنجم(George Fifth) نے

ہندوستان آ کر دلی (Dolh1) میں یہ دونوں تمنات میرے دادا کو دئے۔

یہ دونوں اہمیت کے حامل تمغات میں دئے جانے کے بعد سے میرے دادا

پھر میرے والد سید محمد (مرحوم) کے بعد میری والدہ اور اب میرے پاس

محفوظ ہیں ۔ ان دنوں تمغات کو تقریبا ستاسی (۸۷) سال ہو چکے ہیں اب یہ

.

میرے پرکھوں کی وراثت کا سرمایہ ہیں جو میری آنے والی نسلوں تک خاندنی وراثت

میں رہیں گے۔ اس کتاب کے آخری صفحہ پر اس کا کسی بطور نشان پیش ہے۔)

دوسری اہم بات میرے نانا حافظ ولی محمد کی ہے جنہوں نے اپنے مرنے

سے قبل اپنے سب شاگردوں سے کہا کہ میرے مرنے کے بعد مجھے قبرستان کے

اندر نہیں بلکہ قبرستان کے دروازے پر دن کرنا اور میری قبر کو ہموار کر دینا جہاں

سے قبرستان آنے جانے والے گزرتے ہیں ہوسکتا ہے کہ وہاں سے کوئی ایسا بزرگ

ولی گزرے ہے اللہ کی رفاقت حاصل ہو اس کے قدموں کے طفیل میری بخشش

ہو جائے چنانچہ ان کے اطاعت گزار اور عقیدت مند شاگردوں نے ایسا ہی کیا اور

آج بھی وہ اسی جگہ ( دہلی میں دئی دروازہ کے قبرستان کے دروازے کے پاس)

نہیں یاد رہے کہ دلی دروازہ کا قبرستان، فیروز شاہ کوٹلہ کے قریب ہے

Leave a reply