پاکستان میں صدر کتنا طاقتور ہے تحریر اصغر علی   

0
52

  

اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کبھی پاکستان میں صدر کا عہدہ  اتنا طاقتور ہوتا کہ وہ منتخب حکومت کو با آسانی کر بھیج سکتا تھا ایسا پاکستان کی تاریخ میں پانچ مرتبہ ہو چکا ہے کہ کسی صدر نے قومی اسمبلی تحلیل کرکے منتخب حکومت کو گھر بھیجا ہو ان میں دو دفعہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو صدر نے منتخب قومی اسمبلی توڑ کر گھر بھیجا تھا لیکن اب یہ صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے یہاں پر یہ بات بہت ہی دلچسپ ہے کہ آج کل کے پاکستانی صدور کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں صدر کا عہدہ اب برائے نام رہ گیا ہے اس آرٹیکل میں جانتے ہیں کہ کیا واقعی یہ عہدہ برائے نام رہ گیا ہے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ضیاء الحق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے صدر کو یہ اختیار دیا تھا وہ منتخب اسمبلی کو تحلیل اس صورت میں کر سکتا ہے  کہ  جب یہ صورتحال پیدا ہو جائے کہ ملک کی حکومت آئین کے مطابق چلانا ناممکن ہوجائے اور اسے عوامی مینڈیٹ کی ضرورت پڑ جائے لیکن اس کے بعد پہلے تیروی ترمیم آئی جس میں صدر کے اختیارات کو کم کر دیا گیا اور اس کے بعد پاکستان کے موجودہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کی گئی جس میں اس کو بالکل ختم کر دیا گیا اس کے ختم ہونے کے بعد صدر  اسمبلی ایک ہی صورت میں توڑ سکتا ہے اگر اس کو وزیراعظم ایسا کرنے کو کہے اور باضابطہ طور پر نوٹس تحریر کرکے بھیجے اسمبلیوں کے تحلیل ہونے یا کسی بہران کی صورت میں صدر وہ اقدام کر سکتا ہے جو عام طور پر منتخب وزیراعظم کرتا ہے اس کے علاوہ نومنتخب کابینہ اور وزیر اعظم سے حلف لینا بھی صدر کی ذمہ داری ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں میں صدر ملک کا سردار فادر آف دی نیشن اور اتحاد کی علامت ہوتا ہے صدر ملکی فوج کا کمانڈر اینڈ چیف بھی ہوتا ہے لیکن ملک کی فوج کے سربراہ نامزد کرنے کا اختیار جو کہ تیرہویں اور اٹھارویں ترمیم سے پہلے صدر کے پاس ہوتا تھا آپ وہ وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پاس چلا گیا ہے آج صدر پاکستان کے پاس اتنے اختیارات ہیں کہ پارلیمنٹ سے آنے والا کوئی بھی بل ل صدر پاکستان کے دستخط کے بنا منظور نہیں ہو سکتا ہے صدر پاکستان چاہے تو اس بل کو دوبارہ پارلیمنٹ میں بھیج سکتا ہے اور اس کو کوئی بھی چیلنج نہیں کر سکتا حتیٰ کہ ملک کا وزیراعظم ہی کیوں نہ ہو  ملک کے اندر غیر ملکی مہمانوں کی میزبانی اور ملک کے باہر پاکستان کی نمائندگی بھی صدر ہی کرتا ہے صدر کے پاس یہ بھی اختیار ہوتا ہے  کہ وہ کسی بھی مجرم کی سزا کسی بھی ٹائم معاف کر سکتا ہے اور ان کی سزاؤں میں کمی بھی کر سکتا ہے صدر وفاقی کی تمام یونیورسٹیوں کا چانسلر بھی ہوتا ہے اس کے علاوہ صوبائی یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدے  صوبے کے گورنر کے پاس ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹیز کے تمام منتظمین وائس چانسلر کہلاتے ہیں آج کل  پاکستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا خیال  ہے کہ صدارتی نظام  پارلیمانی نظام سے بہتر ہے صدارتی نظام میں تمام اختیارات صدر کے پاس ہوتے ہیں  مگر حقیقت میں پاکستان وہ ملک ہے جس نے صدارتی نظام کو بھی آزمایا جا چکا ہے ان میں میں سرفہرست فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان جنرل محمد یحییٰ خان ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل محمد ضیا الحق شامل ہیں جو کہ اس نظام کو آزما چکے ہیں صدارتی نظام ناکام ہونے کے بعد  آئین میں اٹھارویں ترمیم کے تحت پارلیمانی نظام لایا گیا آج بھی پاکستان میں پارلیمانی نظام ہی رائج ہے اس نظام میں تمام اختیارات وزیراعظم کے پاس ہوتے ہیں

Asghar Ali is digital media journalist, Columnist and Writer who writes for baaghitv.com.
for more info visit his twitter 

        account @Ali_AJKPTI 

Twitter id : https://twitter.com/Ali_AJKPTI

Leave a reply