ڈریں اس وقت سے جب عوام خود بغیر کسی لیڈر کے خود سٹرکوں پر ہوگی،تحریر:نوید شیخ

0
38

حکومت نے رات کے آخری پہر مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں ستائی ہوئی پاکستانی عوام پر ’پٹرول بم‘ایسا مارا ہے جیسے کبھی1965 میں بھارت نے پاکستان پر شب خون مارا تھا ۔ آٹھ روپے اضافے کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔۔ ابھی دو روز پہلے ہی وزیراعظم عمران خان کی جانب سے عوام کے لیے ’ ریلیف پیکج‘
بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تکلیف پیکج کا اعلان کیا تھا ۔۔ عندیہ تو عمران خان نے پہلے ہی دے دیا تھا مگر اس بار تو پندرہ تاریخ کا بھی انتظار نہیں کیا گیا ۔ شاید اس ماہ کی پندرہ کو پھر اس حکومت کا عوام کو ٹیکہ لگانے کا پلان ہے ۔ ۔ یہ اس حکومت نے عوام پر ایک ماہ میں تیسرامہنگائی بم گرایا ہے ۔ ان کے اس فیصلے سے سفید پوش طبقہ کتنا متاثر ہوگا اور اب جو مہنگائی کا ایک نیا ریلا آئے گا ۔ اُس کا انکو اندازہ ہی نہیں ۔ یہ بس بدمست ہاتھی کی طرح جنگل تباہ کیئے جارہے ہیں اور کوئی انکو روکنے والا نہیں۔ تاہم ایسے حالات میں بھی وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ حکومت پہلے ہی پٹرولیم ٹیکس 31 روپے سے کم کر کے پانچ روپے تک لا چکی۔ اب بھی اگر قیمت کم رکھنی ہو تو پھر قرضہ لینا پڑے گا جو کسی صورت ملک کے مفاد میں نہیں۔ ہائے دیکھا کتنی عوام دوست حکومت ہے ۔

۔ عمران خان جو ہالینڈ کے وزیراعظم اور یورپ کی مثالیں دیا کرتے تھے خود تو کپتان ایک دن بھی سائیکل پر دفتر نہیں گئے ، مگر عوام کو سائیکل پر لے آئے ہیں ۔ یہ ہے وہ تبدیلی ۔۔۔ ۔ حکومتی ترجمان اور عمران خان خطہ کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے- پر کل بھارت میں حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے لئے پٹرول پانچ روپیہ اور ڈیزل دس روپیہ فی لیٹر ڈیوٹی گھٹا کے سستا کر دیا جبکہ ہماری تبدیلی سرکار نے عوام کو مزید کچلنے کے لئے پٹرول اور ڈیزل مذید مہنگا کیا۔۔ اصل فرق تو ان موٹر سائیکل سواروں کوپڑتا ہے جن کونہ فری پٹرول ملتاہے اور نہ ہی بدلوانے کیلئے کوئی پرزہ۔ یہی حال ان عام شہریوں کا ہے جنھوں نے اپنی محنت کی کمائی سے گاڑی خریدی ہوئی تو ہے پر اب وہ ان کے لئے وبال جان بنی ہوئی ہے۔۔ میری بات نوٹ کر لیں انھوں نے پیڑول کیا ، ڈالر ، چینی ۔۔۔ ہر چیز کی ڈبل سنچری کروانی ہے ۔ انھوں نے غریب کو جینے کا کوئی حق نہیں دینا ۔ یہ غریب مکاؤ مہم پر نکلے ہوئے ہیں ۔ ۔ حکومت نالائقی، نااہلی اور کرپشن کی ہر حد پار کر چکی ہے ۔ آپ دیکھیں کل ایک بار پھر پنجاب حکومت نے پولیس میں تیس سے زائد تبادلے کر دیئے ہیں ۔ کیا یہ کوئی گورننس ہے ۔ ایسے نظام چلائے جاتے ہیں جیسے یہ چلا رہے ہیں ۔ قوم تو تمام امیدیں چھوڑ چکی ہے اب تو وہ یہ بھی نہیں پوچھتی کہ اچھے دن کب آئیں گے۔ ہاں البتہ ہر کوئی یہ ضرور پوچھتا ہے کہ اس تبدیلی سے کب جان چھوٹے گی ۔

۔ پھر حکومت کے چینی کی قیمت میں کمی کے سب وعدے الٹے ہوگئے ہیں ۔ کیونکہ اس معاملے میں حکومت اور مافیا دونوں ملے ہوئے ہیں ۔ حکومت چینی جان بوجھ کر امپورٹ نہیں کررہی ۔ تو چینی مافیا والے کرشنگ سیزن سے پہلے دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ یہ گزشتہ حکومتوں کو ڈاکو کہا کرتے تھے ۔ مگر یہ تو خود سب سے بڑے ڈکیت ثابت ہورہے ہیں ۔ ۔ سچ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں شوگرمل مالکان کو265 ارب روپے کااضافی منافع پہنچایاگیا ہے ۔ صرف اس سال کے 10 ماہ میں 67ارب روپے کااضافی منافع دیا گیا ۔ اب سمجھ آئی کہ یہ مافیاز کیوں نہیں پکڑے جاتے ۔ کیونکہ سب کچھ تو حکومت خود کروارہی ہے ۔ مافیاز ان کے اندر موجود ہیں ۔ اس لیے تو نیب کے ہاتھ پاوں باندھے گئے ہیں کہ وہ صرف اپوزیشن کو ہی پکڑ ان کی طرف نظر نہ اٹھا سکے ۔ ۔ آپ دیکھیں پنجاب کے سابق معاون خصوصی خوراک جمشید اقبال چیمہ نےتین ہفتے قبل گنے کی بمپرفصل کی خوشخبری دی تھی اورکہاتھاکہ نومبرسے چینی80 روپے کلوملے گی۔ حالات یہ ہے کہ اب 150 میں بھی نہیں مل رہی ہے ۔ ۔ پھر حکومت نے یوٹیلٹی اسٹورز پر کوکنگ آئل کی قیمت میں 65 روپے فی کلو جبکہ گھی 53
روپے فی کلو اضافہ کیا ہے۔ عوام یاد رکھے یہ وہ اشیاء ہیں جن پر وزیراعظم نے دو دن پہلے ریلیف کا اعلان کیا تھا۔ میری نظر میں تو چینی سبسڈی کی طرح ریلیف پیکج بھی مافیا کھا جائے گا۔ کیونکہ یہ سبسڈی احساس پروگرام کے تحت ملنی ہے ۔ نہ کوئی رجسڑ ہوگا نہ کسی کو ملے گی ۔ پھر اس پیکج کے تحت اندازً ایک خاندان کو ماہانہ ایک ہزار روپے کا ریلیف ملنا ہے۔ یہ کسر تو حکومت پیڑول کی قیمت بڑھا کر پوری کردی ہے ۔ یعنی کان ایک سائیڈ سے نہیں تو دوسری سائیڈ سے پکڑ لو ۔

۔ اور پھر سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان دو کروڑ افراد کا ملک ہے جن کے لئے وزیر اعظم نے ریلیف پیکج کا اعلان کیاہے؟ کیا باقی کے بیس کروڑ افراد کو کسی ریلیف کی ضرورت نہیں ہے۔ اس ملک میں چالیس فیصد آبادی یعنی آٹھ کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں مگر وزیر اعظم کو صرف دو کروڑ نظر آئے اور اس ریلیف کا آغاز بھی کہیں دسمبر کے وسط میں جا کرہوگا۔ ۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ پنتالیس فیصدگرا ہے تو میری اور آپ کی جیب میں پڑا ایک سو روپے کا نوٹ پچپن روپے کا رہ گیا ہے۔ ۔ دوسری جانب تیل کی قیمتوں میں اضافے سے ہر شے کی ٹرانسپورٹیشن لاگت میں تیس سے چالیس فیصد اضافہ ہوگیا اور مہنگائی کے خشک جنگل کو آگ لگ گئی۔۔ جنرل سیلز ٹیکس کے اطلاق نے اس ملک میں عام آدمی کاجینا محال کردیا ہے، اس ایک ٹیکس میں گھن کے ساتھ گیہوں بھی پس رہا ہے، یعنی وہ لوگ بھی ٹیکس ادا کرنے کو مجبور ہیں جنھیں حکومتی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ ۔ عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان میں پٹرول کی قیمتیں اور مہنگائی خطے کے دیگرممالک سے کم ہے۔ اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں مہنگائی خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ تین سال کے دوران میں فی کس آمدنی بھی ریکارڈ 13.51 فیصد تک گر گئی جبکہ ملک میں غربت بھی بڑھ گئی ہے۔

۔ ان سے پہلے دور حکومت بہتر تھے ۔ اور یہ میں نہیں اعداد وشمار بتارہے ہیں ۔ ۔ پاکستان میں 2018ء میں فی کس آمدنی 1480 ڈالر تھی، 2020ء میں پاکستان میں فی کس آمدنی 1280 ڈالر رہی۔ ایک اور اہم فیکٹر کی مدد سے مہنگائی کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی شرح 10.74 فیصد ہے۔ یہ شرح خطے کے ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ بھارت میں مہنگائی کی شرح 6.62 فیصد ہے، بنگلہ دیش میں مہنگائی کی شرح 5.69فیصد ہے، سری لنکا میں مہنگائی کی شرح 6.15 فیصد ہے، چین میں مہنگائی کی شرح صرف 2.4 فیصد ہے۔ پاکستان میں فی کس آمدنی تین برسوں میں خطے کے ممالک میں سب سے زیادہ یعنی 13.51 فیصد گر گئی، ان تین سالوں میں ہم آگےجانے کی بجائے پیچھے گئے ہیں ۔ ۔ عمران خان قوم کو ایف بی آر کی
37فیصد زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کی نوید سنا کر ایف بی آر افسروں کو شاباس کے سرٹیفکیٹ اور بونس تو دے رہے ہیں۔ پر سچ یہ ہے کہ یہ سب براہِ راست ٹیکسز ہیں جو بجلی،گیس کے بلوں اور پٹرول سے براہِ راست اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔۔ پتہ نہیں عوام نے ان کو ووٹ دے کر کیا غلطی کر دی ہے کہ یہ صرف عوام کو ہی تن رہے ہیں ۔ حالات یہ ہیں کہ یہ عوام کی چیخیں بھی نہیں سننا چاہتے ۔ ایک ایک خاندان کو ہیلتھ کارڈ کے ذریعے 10لاکھ تک ہسپتالوں سے ریلیف دینے کا جنازہ نکل چکا ہے، کوئی ہسپتال ہیلتھ کارڈ پر ریلیف دینے کے لئے تیار نہیں،50
لاکھ گھروں کے لئے قرضے دینے کا منصوبہ بھی منگوا کر دیکھ لیں۔ ایک کروڑ نوکریاں بھی توجہ کی منتظر ہیں، دیگر ممالک کی مہنگی مصنوعات کے ساتھ دیگر ممالک کی سہولیات اور سروسز کا بھی جائزہ کروا لیا جائے۔ اس وقت وزیراعظم یوٹیلٹی سٹور پر ریلیف ختم کر چکے ہیں۔ اور پٹرول سے دو سو ارب دو ماہ میں عوام سے وصول کرنے کا منصوبہ ہے۔ حکومت جو بجلیاں عوام پر گرا رہی ہیں ۔ اس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ نااھل حکومت کی رخصتی کا وقت قریب ھے۔ اس حکومت کی تمام توجیہات اور صفیائیں جھوٹ کا پلندہ ہیں ۔

۔ اپوزیشن بھی پتہ نہیں کہاں دھنیا پی کر سوئی ہوئی ہے ۔ اپنے مفادات کے لیے تو یہ لانگ مارچ ، دھرنا پتہ نہیں کیا ۔۔۔ کیا کرلیتے ہیں ۔ اب جب عوام کی روز ہی بینڈ بجائی جارہی ہے تو یہ بس بیانات اور ٹویٹس پر گزارا کر رہے ہیں ۔ حالانکہ جیسے اس حکومت نے گزشتہ ایک ماہ کے اندر پاکستانی عوام پر مہنگائی بم گرائے ہیں اب تک تو اپوزیشن کو پہیہ جام ہڑتال سے لے کر حکومت کے بائیکاٹ کی مہم شروع کروا دینی چاہیئے تھی ۔ ڈریں اس وقت سے جب عوام خود بغیر کسی لیڈر کے خود سٹرکوں پر ہوگی اور اس کا ہاتھ اس حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے گربیانوں تک بھی پہنچ جائے گا ۔ جس طرح حکومت اپنی کاروائیاں ڈال رہی ہے ۔ مجھے ڈر ہے کہ ایسا عنقریب ہو جائے گا ۔ بس ایک چنگاری لگنے کی دیر ہے ۔

Leave a reply