طالبان حکومت نےسفرکیلئے خواتین کےساتھ محرم کا ہونا ضروری قراردیا

کابل: افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ’اسلام کے اصولوں‘ کے مطابق اگر خواتین بیرون ملک سفر کرتی ہیں تو محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔

باغی ٹی وی :طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی شخص بغیر کسی معقول وجہ کے افغانستان نہیں چھوڑ سکتا اور ایسے سفر کو روکا جائے گا خواتین ’مذہبی عذر کے بغیر‘ ملک کو تنہا نہیں چھوڑ سکتیں اور خواتین طالبات کے لیے افغانستان سے باہر سفر کرنے کا حل تلاش کیا جائے گا۔

افغانستان: طالبات کی الگ شفٹ کے ساتھ کابل یونیورسٹی سمیت ملک بھر کی تمام جامعات…

فرانس 24 کے مطابق کہ ملک چھوڑنے سے ان افراد کو روکا جا رہا ہے جن کے پاس اس کی کوئی خاص یا ٹھوس وجہ نہیں ہے۔

ترجمان نے کہا کہ کہ بنا کسی ٹھوس یا معقول وجہ کے ملک چھوڑنے والے افراد یا خاندانوں کو ایئرپورٹ پر امیگریشن حکام روک دیں گے۔

ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ’اسلام کے اصولوں‘ کے مطابق اگر خواتین بیرون ملک سفر کرتی ہیں تو محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے اور یہی شریعت کا بھی قانون ہے ’جو لڑکیاں سکالرشپ حاصل کرتی ہیں اور انہیں تعلیم کے لیے دوسرے ممالک جانا پڑتا ہےان کےلیے بیرون ملک جانے کا ایک طریقہ کار بنایا جائے گا۔

تاہم بیرون ملک سفر کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والوں میں بڑی تعداد انسانی حقوق کے کارکنوں اور افغانستان کے اندر مطلوب افراد کی ہے جو ملک سے باہر جانے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔

کابل:آپریشن کلین اپ میں 9 اغوا کاروں سمیت 68 جرائم پیشہ افراد گرفتار

طالبان کے ترجمان نے کہا کہ بیرون ملک افغان پناہ گزین شدید مشکلات کا شکار ہیں اور جب تک حالات بہتر نہیں ہوتے انخلا کا عمل روک دیا جائے گا بیرون ممالک میں کچھ افغان انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور وہ (طالبان) نہیں چاہتے کہ دوسرے افغانوں کا بھی ایسا ہی انجام ہو۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور سفری پابندیاں اس وقت تک عائد رہیں گی جب تک یقین دہانی نہ کرا دی جائے کہ بیرون ملک جانے والے افغانوں کی زندگیوں کو خطرہ نہیں ہو گا۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت نے کبھی بھی یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ انخلا کا عمل غیرمعینہ مدت تک جاری رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر ہم نے کہا تھا کہ امریکہ ان افراد کو لے کر جا سکتا ہے جن کے متعلق اسے تشویش ہے لیکن یہ وعدہ ہمیشہ برقرار تو نہیں رہے گا۔

عالمی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اعلان کردہ نئی سفری پابندیوں سے وہ افغان شہری سب سے زیادہ متاثر ہوں گے جنہوں نے غیر ملکی افواج یا تنظیموں کے ساتھ ماضی میں کام کیا تھا اور اس وقت پوری امید لگائے بیٹھے تھے کہ وہ بیرون ملک پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ایسے افغان شہریوں کی تعداد ہزاروں میں ہے اعداد و شمار کے تحت 31 اگست تک ایک لاکھ 20 ہزار افغان اور دہری شہریت رکھنے والے افراد کو افغانستان سے نکلنے میں مدد فراہم کی گئی تھی۔

تین سال تک طالبان کی قید میں رہنےوالےآسٹریلوی لیکچرارکا افغانستان جانے کا اعلان

واضح رہے کہ خواتین پر پہلے ہی شہروں اور قصبوں کے درمیان سفر کرنے پر پابندی ہے جب تک کہ کسی قریبی مرد رشتہ دار کے ساتھ نہ ہوں طالبان نے گذشتہ سال دسمبر میں ملک کے اندر خواتین کے سفر کے حوالے سے سلسلہ وار حکم نامے جاری کیے تھےاس وقت، طالبان کی وزارتِ کمان اور امتناع کی طرف سے ایک ہدایت نامہ جاری کیا گیا تھا، جسے گاڑی چلانے والوں میں تقسیم کیا گیا تھا، اور تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تھیں۔

اس ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ ڈرائیوروں کو گاڑی میں بے پردہ خواتین کو نہیں بٹھانا چاہیے، گاڑی میں میوزک نہیں بجانا چاہیے اور جو خواتین پانچ کلومیٹر سے زیادہ سفر کر چکی ہیں اور ان کے ساتھ کوئی ہم سفر نہیں ہے انہیں گاڑی میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

طالبان کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ کابل اور دیگر علاقوں میں گھر گھر تلاشی کا مقصد کابل اور دیگر شمالی صوبوں میں ’کلیئرنگ آپریشنز‘ تھا تاکہ افغان تاجروں اور شہریوں کے تحفظ کو بہتر طور پر یقینی بنایا جا سکے۔

طالبان جنگجوؤں پراسلحے کے ساتھ تفریحی پارکس میں جانے پرپابندی عائد

Comments are closed.