امریکی خط کی رام کہانی ، ازقلم: غنی محمود قصوری

0
55

امریکی خط کی رام کہانی

موجودہ حالات میں آپ کسی یوتھیئے سے پوچھیں کہ بھئی یہ حظ والی کہانی کیا ہے؟

تو وہ جواب دے گا کہ حظ امریکی گورنمنٹ نے خود لکھا ہے ہمارے وزیر اعظم کو اور دھمکی دی تھی ان کو

دوبارہ پوچھیں بھائی حظ کے اندر لکھا کیا تھا اور حظ کیا امریکی گورنمنٹ نے پوسٹ کیا تھا وزیراعظم کے نام پر؟

تو جواب تو جواب ہو گا ہاں تو اور کیا آپ کو نہیں پتہ فلاں فلاں مگر اس سے آگے اگر کچھ بتائیں ہمیں بتائیے گا ضروران بےچارے اندھے سیاسی مقلدین کو جو انکا لیڈر بول دے وہ ان سیاسی مقلدین (یوتھیئے . پٹواری. جیالے وغیرہ ) کے لئے وہ بات معاذاللہ قرآنی حکم اور حدیث کا درجہ رکھتی ہے یہ تحقیق کرنے کے عادی ہی نہیں اور پھر یہ سیاسی جماعتوں کے مقلدین اندھا دھند اپنی نفرت کا رخ افواج پاکستان کی جانب کرتے ہیں-

اور یہ طریقہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا ہے بشمول پی ٹی آئی کے، اصل میں یہ چاہتے ہیں کہ افواج پاکستان انکے لیڈروں کے سامنے پنجاب پولیس کی طرح بن کر رہے یعنی ان کے گھروں کی لونڈی، ان کی ہر ہاں میں ہاں ملائی جائے تو مامے خان 27 فروری کو بھجوانا تھا نا اپنے کسی سورمے لیڈر کو تو خیر یہ تو ہونے والا نہیں کبھی قیامت تک بھی ان شاء اللہ کیونکہ اگر ایسا ہو جائے تو ملکی سلامتی کا حال وہی ہوگا جو ہمارے ملک میں پولیس کی کارکردگی کے باعث لاء اینڈ آرڈر کا ہے اور نتیجتاً ہمارے خون کے پیاسے بھارتی ہندو کل ہی چڑھ دوڑیں گے پاکستان پر-

خیر اصل بات کی طرف آتا ہوں یہ حظ کیا تھا اور خان صاحب نے اس کو کیسے سیاسی انتشار پھیلانے کے لئے استعمال کیا ہے یہ خظ منٹ آف میٹنگ تھا جو امریکہ کے پاکستانی سفیر کے ساتھ امریکی آفیشل نے باتیں کی تھیں اور ان باتوں کا راوی ہمارا پاکستانی سفیر ہے جو امریکہ میں ہوتا ہے پاکستان کی گورنمنٹ کی طرف سے اور یہ خظ امریکی آفیشل کی جانب سے نہیں لکھا گیا تھا بلکہ یہ سفیر نے مراسلہ لکھا کہ یہ یہ میٹنگ میں باتیں ہوئی ہیں-

جب روس یوکرائن پر حملہ کرنے جا رہا تھا تو امریکہ اور اسکے تمام اتحادی یعنی نیٹو وغیرہ غصے میں تھے جبکہ ترکی کو بھی یہ حملہ قبول نہیں تھا کیونکہ وہ بھی نیٹو میں شامل ملک ہے اسی دوران خان صاحب کا دورہ روس ہونا تھا جو کہ پہلے سے طے شدہ تھا مگر پاکستانی سیکورٹی آفیشلز نے انہیں روکا کہ ابھی دورہ نا کریں کیوں کہ روس کی جانب سے یوکرائن پر حملے کی تیاریاں مکمل ہیں اور اگر ایسا ہوا تو یورپ اور امریکہ سے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں-

چونکہ ہماری تجارتی و معاشی منڈی ابھی تک یورپ اور امریکہ ہی ہیں ناکہ روس ہے اس لئے دورہ نا کیا جائےمگر ہمارا ہیرو خان نیازی کہاں سنتا ہے عسکری قیادت کو کہتا ہے کہ دورہ طے شدہ ہے اور انکل نیازی نکل پڑا تو اسی روز روس نے یوکرائن پر حملہ بھی کر دیا

ہمارے یوتھیئے تصاویر شیئر کر کے خوش ہوتے رہے کہ دیکھا کپتان نے کیسے جنگ لگوائی فلاں فلاں او بھئی دو کافر ملکوں کی جنگ ایک تمہارا پرانا دشمن اور حالیہ ایک سے امداد لے کر اپنے ہی بندے اندر کر رہے ہو اور ساتھ قرض بھی لیتے ہو اور کہتے ہو کہ ہم اس کے غلام نہیں او غلام نہیں تو اپنی ہی مذہبی جماعت کی دلالی تاحال کھانے والوں کرو رہا فوری اپنے جہادی ہے ہمت ایسا کرنے کی ؟-

اگر فوج دفاعی نقطہ نظر سے قوم کا بھلا کرے تو غلط اکڑوں خان گردن میں سریا رکھے تو درست چاہے نئی دشمنی پڑ جائے اسے کیا اس نے تو پارلیمنٹ ہاؤس کی نکر یا پھر برطانیہ میں نکل جانا ہے دہشت گردی کی آگ میں جلنا بیچاری غریب عوام نے ہےخیر اسی مدعہ پر آتا ہوں-

اسی دورہ روس کی خبر امریکی گورنمنٹ کو بھی تھی تو انہوں پہلے ہی ہمارے سفیر کو بلا کر سخت الفاظ میں کہا کہ اگر آپکا وزیر اعظم روس کا دورہ اس جنگی ماحول کے دوران کرتا ہے تو یہ ہمیں قبول نہیں ہوگا اور اس کے نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں اور آپ کے ملک کے لئے یہ نتائج اچھے نہیں ہوں گے (یعنی دفاعی، معاشی اور دیگر پابندی وغیرہ وغیرہ جو امریکہ کرتا ہے ہر اپنے حریف کے ساتھ )-

یہ ایک طویل میٹنگ تھی پاکستانی سفیر کے ساتھ ظاہری بات ہے امریکہ اور روس دونوں ممالک ایک دوسرے کے سخت حریف ہیں اور کئی دہائیوں سے ان کے درمیان کولڈ وار چل رہی ہے اور پاکستان کا اتحادی امریکہ ہے آج بھی دفاعی اور معاشی امور پر نا کہ روس تو ایسے میں ابھی پاکستان کے کوئی ایسے معاملات ہوئے ہی نہیں کہ روس سے دفاعی و معاشی تو پھر ہمیں اس جنگ کا حصہ بننے کا فائدہ
جبکہ جنگ بھی دو کافر ملکوں کے مابین ہے-

روس تو آج بھی بھارت کی حمایت کرتا ہے دفاعی کھلے عام اور بھارت دنیا میں ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے اور کشمیر پر قابض بھی ہے
سوچنے کی بات ہے بھئی کہ جب کسی ملک سے ایسے معاملات ہوں جیسے آپ کے امریکہ کے ساتھ ہیں تو ایسی صورت حال میں ہمیشہ ہر ملک اپنے ملک میں موجود سفیر کو طلب کرتا ہے اور سخت بات ہی کرتا ہے کہ جناب اگر آپ کی حکومت نے ایسا کیا تو یہ ہو جائے گا ہم فلاں فلاں کر دیں گے-

حتی کہ ایسے ہی ہمارے ملک میں بھی بہت بار دوسرے ممالک کے سفیروں کی طلبی کی جاتی رہی ہے اور سیکورٹی امور پر سخت الفاظ کہے جاتے رہے ہیں سفیر اور پھر وہ سفیر ان سب باتوں کو اپنی حکومت کو مراسلات میں لکھ کر سینڈ کر دیا کرتے ہیں یہاں اس خط میں بھی وہی معاملہ ہوا ہے-

مراسلہ منجانب پاکستانی سفیر وزیراعظم کو منٹس آف میٹنگ لکھ کر سینڈ کر دئیے گئے اور اسی دوران بلکہ اس سارے معاملے سے قبل آپوزیشن نے پی ٹی آئی کے لوگ خریدنے شروع کر دئیے تھے تحریک عدم اعتماد کے لئے اب حظ جب آیا تو اسی وقت خان صاحب نے شور کیوں نہیں مچایا بلکہ جب دیکھا کہ تحریک کامیاب ہونے جا رہی اور کافی یار فروخت ہوچکے ہیں سیاسی منڈی میں تو پھر اچانک خان نے یہ چال چل دی کہ یہ سب امریکہ کروا رہا ہے-

خان صیب نے اپنے ہی سفیر کا لکھا مراسلہ اٹھا اٹھا کہنا شروع کر دیا کہ مجھے امریکہ سے ایک دھمکی والا حظ آیا ہے اور اپوزیشن کو انہوں نے میرے پیچھے لگایا ہے وغیرہ بھئی نیازی خان جمہوری رویہ اختیار کرو تم نے بھی تو کئی سال آپوزیشن بن کر اس وقت کی حکومت کو نتھ ڈالی رکھی تھی اور چینی حکومت کے دورے کے وقت بھی تم باز نہیں آئے تھے دھرنا اسلام آباد میں جو کہ پارلیمنٹ کے سامنے کیا تھا تم نے یاد ہے کہ نہیں؟ وہ جلاؤ گھیراؤ،وہ پی ٹی وی پر حملہ تو کیا اس وقت تم نے بھی بھارت سے پیسے لے رکھے تھے پاکستان کو مشکلات میں مبتلا کرنے کے لئے؟-

اب جب وزیراعظم نے شور مچانا شروع کر دیا کہ جناب مجھے امریکہ سے دھمکی آئی ہے ثبوت میرے پاس ہے تو اسی وقت پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کونسل نے وزیراعظم سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا دھمکی ہے جو ہمیں بھی نہیں پتہ چلی اور بڑی خاموشی سے امریکہ نے آپ کو دی ہے (ورنہ امریکہ تو جب کسی ملک کو دھمکی دیتا ہے بڑی کھل کر دیتا ہے چاہئے دھمکی پر عمل کرے یا نا کرئے مگر ہوائی فائرنگ ضرور کرتا ہے)-

تو خان صاحب نے وہ سفارتی مراسلہ دیکھایا اب نیشنل سکیورٹی کونسل نے اسے نارمل ہی لیا اور یہ طے ہوا کہ اس کا جواب مراسلہ ہی میں دیا جائے گا نا کہ احتجاجی طور پر کیوں کہ یہ مراسلہ جو آپ کے پاس ہے یہ ایک ملک کو دوسرے ملک کی دھمکی نہیں ہے لحاظا جوابی کارروائی میں جوابی مراسلہ ہی کی صورت میں دیا گیا تھا-

اور پھر امریکی گورنمنٹ کی آفیشل نے بھی اپنے ویڈیو بیان میں تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پاکستان کو کوئی دھمکی نہیں دی اس کہانی میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

تو بھائی یہ ہے ساری رام کہانی خط والی ،میری گزارش ہے قوم یوتھ سے خاص کر مقلدین مذہبی قوم یوتھ سے کہ اس سے أگے کچھ ہے تو لاؤ ورنہ فوج پر الزام نا لگاؤ-
شکریہ

غنی محمود قصوری
کونسل ممبر ڈسٹرکٹ پریس کلب قصور
#قصوریات

Leave a reply