پاکستان:صرف 30 اسپتالوں میں انٹروینشنل ریڈیالوجی کی سہولت:36 لاکھ افراد کیلئےصرف ایک ریڈیالوجسٹ

0
59

کراچی :پاکستان:صرف 30 اسپتالوں میں انٹروینشنل ریڈیالوجی کی سہولت:36 لاکھ افراد کیلئےصرف ایک ریڈیالوجسٹ ا،طلاعات ہیں کہ پاکستان کے 1276 بڑے اور درمیانے اسپتالوں میں سے صرف 30 نجی اور سرکاری اسپتال انٹروینشنل ریڈیالوجی کی سہولیات فراہم کررہے ہیں جبکہ ملک میں اس شعبے کے ماہرین کی تعداد صرف 60 ہے، 36 لاکھ افراد کیلئے صرف ایک ریڈیالوجسٹ ہے۔

اس بات کا انکشاف انٹروینشنل ریڈیالوجی سوسائٹی آف پاکستان کے نو منتخب صدر ڈاکٹر کاشف شازلی نے ہفتے کے روز کراچی میں منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انٹروینشنل ریڈیالوجی ایک ایسا طریقۂ علاج ہے جس میں ماہرین ایکسرے، سی ٹی، ایم آر آئی یا دیگر امیجنگ گائیڈنس کے ذریعے مریضوں کے دماغ اور جسم کے دیگر حصوں میں پتلی نلکیوں اور آلات کے ذریعے مختلف امراض کا علاج کرتے ہیں اور مریض اس طریقۂ کار کی بدولت جلد صحتیاب ہوکر گھر چلے جاتے ہیں۔

انٹروینشنل ریڈیالوجی سوسائٹی آف پاکستان کی 2 روزہ چھٹی سالانہ سائنٹیفک کانفرنس کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہورہی ہے جس میں امریکا، برطانیہ، ملائیشیا، سنگاپور اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک سمیت نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا اور پاکستان کے کئی شہروں سے ماہرین شرکت کررہے ہیں۔

کانفرنس سے سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر خرم شفیق خان، ڈاکٹر جمشید انور اور ڈاکٹر احسان کیانی کے علاوہ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر سعید قریشی سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا۔

معروف انٹروینشنل ریڈیالوجسٹ اور انٹروینشنل ریڈیالوجسٹ سوسائٹی کے نومنتخب صدر ڈاکٹر کاشف شازلی نے کہا کہ پاکستان بھر میں بمشکل 60 سے 70 انٹروینشنل ریڈیالوجسٹ کام کررہے ہیں، جن کی اکثریت کا تعلق نجی اسپتالوں سے ہے، صحت کے مسائل کو دیکھتے ہوئے سرکاری اسپتالوں میں مزید انٹروینشنل ریڈیالوجی مراکز بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ بہت سی بیماریوں میں موت اور معذوری کی وجہ بننے والی پیچیدیگیوں کو خون کی نالیوں میں رکاوٹیں دور کرکے قابو پایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 36 لاکھ لوگوں کیلئے ایک انٹروینشنل ریڈیالوجسٹ ہے، بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ریڈیالوجسٹ ہیں، امریکا میں ہر ایک لاکھ افراد کیلئے ایک ماہر ہے، پاکستان دنیا کے مقابلے میں اس شعبے میں بہت پیچھے ہے۔

ڈاکٹر کاشف شازلی کا کہنا تھا کہ ملک میں صرف 10 ادارے ہیں جو انٹروینشنل ریڈیالوجی کی تربیت فراہم کررہے ہیں، جن میں سے 7 نجی اور صرف 3 سرکاری اسپتال شامل ہیں، نجی اسپتال پیسے اور بہتر سہولت کی وجہ سے سرکاری اسپتالوں سے آگے نکل چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انٹروینشنل ریڈیالوجسٹ کی کمی کو پورا کرنے اور مزید مراکز کے قیام کیلئے حکومت کو آگے آنا ہوگا۔ پاکستان میں انٹروینشنل ریڈیالوجی کے شعبے میں درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر کاشف شازلی کا کہنا تھا کہ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں ہیلتھ کیئر سسٹم ڈیولپمنٹ اور پالیسی سازوں کو انٹروینشنل ریڈیالوجی کے بارے میں آگہی دینے کی ضرورت ہے۔

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی کا کہنا تھا کہ انٹروینشنل ریڈیالوجی پاکستان میں ابتدائی مراحل میں ہے اور زیادہ تر ادارے جدید پروسیجرز استعمال نہیں کررہے ہیں، ملک میں زیادہ سے زیادہ انٹروینشنل ریڈیالوجسٹ کی تیاری اور ان کی تربیت کیلئے سوسائٹی کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔

انہوں نے انٹروینشنل ریڈیالوجی سوسائٹی آف پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان (سی پی ایس پی) سے رابطہ کریں تاکہ ریڈیالوجی کی اس سب اسپیشیلٹی میں فیلو شپ شروع کی جا سکے۔

کانفرنس کے آرگنائزنگ سیکریٹری اور آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں انٹروینشنل ریڈیالوجی کے سربراہ پروفیسر محمد عظیم الدین نے کہا کہ انٹروینشنل ریڈیالوجی میں جسم میں ایک چھوٹا سا سوراخ کرکے آلات داخل کرکے پروسیجر کئے جاتے ہے، جس میں غلطی کی گنجائش کم سے کم ہوتی ہے اور انٹروینشنل ریڈیالوجسٹ کے ذریعے کیا جانے والا سب سے جدید علاج دماغ کی پھولی ہوئی رگوں کا ہے، جسے اینڈو ویسکولر تھیراپی کہا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس طریقۂ علاج سے پہلے خون کی پھولی ہوئی شریانوں کے علاج کیلئے سرجری کی جاتی تھی جو مشکل کام تھا، لیکن اب انٹروینشنل ریڈیالوجی کے ذریعے اینڈویسکولر علاج انتہائی محفوظ اور آسان ہوچکا ہے۔

پروفیسر محمد عظیم الدین نے مزید کہا کہ اب فالج کی صورت میں فوری طور پر انٹرویشنل ریڈیالوجی کی وجہ سے مستقل معذوری سے بچا جا سکتا ہے، مریض کو بروقت ایسے اسپتال لے جایا جانا چاہئے جہاں انٹروینشنل ریڈیالوجی کی سہولیات موجود ہے تاکہ دماغ کی شریانوں میں ہونے والی رکاوٹ کو فوری طور پر دور کیا جائے۔

معدے اور جگر کی بیماریوں کے ماہر پروفیسر سعد خالد نیاز نے کہا کہ انٹروینشنل ریڈیالوجسٹ معدے کی پیچیدہ طریقۂ کار میں مدد کرسکتے ہیں، وہ اندرونی خون بہنے کی صورت میں خون کو روکنے کیلئے انٹروینشنل ریڈیالوجی تکنیک استعمال کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حساب سے انٹروینشنل ریڈیالوجی کو کم لاگت بنانا چاہئے اور انٹروینشنل ریڈیولوجی کے کئی پروسیجرز ناصرف محفوظ ہیں بلکہ ان کے اخراجات بھی کم ہیں۔

پروفیسر خالد نیاز نے مزید کہا کہ وہ سول اسپتال کراچی کے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اینڈوسکوپی اینڈ گیسٹرو اینٹرولوجی میں انٹروینشنل ریڈیالوجسٹ کی مدد حاصل کریں گے۔

Leave a reply