اسلام آباد؛ اسسٹنٹ پروفیسرکو نوسرباز جعلی بینک ڈرافٹ دے کر 45لاکھ مالیت کی گاڑی لے اڑا

0
76

وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں اسسٹنٹ پروفیسر عمران اللہ خان کے ساتھ دھوکہ دہی کرکے نوسرباز ان کی ہنڈا کار لے گیا.

سوشل میڈیا پر گزشتہ روز ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں پروفیسر عمران اللہ خان کہہ رہے ہیں کہ میں نے اپنی گاڑی بیچی تھی جس کے بدلے مجھے مبلغ 45 لاکھ 80 ہزار کا جعلی بینک ڈرافٹ دے ایک شخص مجھ سے میری گاڑی لے گیا ہے.
لاکھ روپے کا فیصل بینک کا ڈرافٹ دیا گیا جوکہ جعلی تھا تاہم ابھی تک میں تھانوں کے چکر لگا رہا ہوں تھانہ سہالہ اسلام آباد میں درج ایف آئی آر کے مطابق؛ عمران اللہ خان نے او ایل ایکس اور پاک وہیل پر آن لائن اپنی گاڑی ہنڈا سٹی CVT ACPIRE ماڈل 2022 انجن نمبر L_15Z81011160 چیسیز نمبر NGBGN9666NR025448 برنگ کرسٹل بلیک پرل کو فروخت کرنے کا اشتہار دیا تھا.

ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ؛ موبائل نمبر 03259572482 سے مورخہ 22۔09۔28 کو 10:08 بجے سائل کو کال آئی جس میں کہا گیا کہ میں آپ کی گاڑی خریدنا چاہتا ہوں لہذا آپ رقم کی ادائیگی کا طریقہ کار بتائیں لہذا سائل نے اس مزکورہ شخص کو بینک ڈرافٹ لینے کا مطالبہ کیا جبکہ دوسرے دن شام کو مطلوبہ شخص سائل کے دیئے گئے پتہ پر گھر پہنچ گیا. جہاں سائل نے ان سے اقرار نامہ اور بینک ڈرافٹ بجاریہ فیصل اسلامی بنک DHA فیز 2 وصول کیا جس کے بعد وہ شخص سائل کی گاڑی بمع کاغذات اور بائیو میٹرک لیکر چلا گیا.

ایف آئی آر کے مطابق؛ مورخہ 2022۔09۔30 کو بینک میں ڈرافٹ جمع کرایا تو بعدازاں بینک عملہ نے بذریعہ فون سائل کو آگاہ کیا کہ آپ نے جو بینک ڈرافٹ جمع کروایا تھا وہ جعلی ہے جس کے بعد میں حیران رہ گیا اور مذکورہ شخص نے مجھے اپنا نام انور حسین بتایا تھا جس نے سائل کے ساتھ یہ دھوکہ کیا ہے لہذا مزکورہ شخص کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور سائل کی گاڑی برآمد کی جائے.
فریق اول اور دوئم کے درمیان اقرار نامہ
اقرار نامہ کے مطابق؛ مایانکہ عمران اللہ خان ولد محمد رمضان خان فریق اول (فروخت کنندہ ) انور حسین ولد محمد شفیع ، ساکن مکان نمبر 10 سکھ چین روڈ سیکٹر B .ڈی ایچ اے فیز 11 اسلام آباد، حامل قومی شناختی کارڈ نمبر 9۔2733746۔45403 فریق دوئم خرید کنندہ ہے
جو کہ فریق اول مذکورہ ایک عدد گاڑی HONDA CITY ASPIRE رجسٹریشن نمبر N/A ماڈل 2022 چیسیز NFBGN9666NR025448 ،انجن نمبر L-15Z81011160 کا واحد کامل مالک قابض بلا شرکت غیر ہے. اس اقرار نامہ میں مزید لکھا ہے کہ؛ گاڑی ہذا میں کسی بھی دوسرے شخص کا کوئی بھی عمل دخل نہیں ہے اور گاڑی متذکرہ بالا ہر ایک سقم قانونی وبا رہائے کفالت ومواخذ ، تنازعات، رہن ،بیع، ہبہ، سرقہ اور دیگر ہر قسم کے زیر باریوں سےبہمہ وجوہ پاک صاف ہے.چنانچہ اب فریق اول مذکور نے گاڑی متذکرہ بالا معہ جمیع حق و حقوق ہر قسم بعوض مبلغ پینتالیس لاکھ اسی ہزار روپے (RS45،80،000) بدست و بحق فریق دوئم مذکورہ کو فروخت کر دی ۔ لہذا ہم ہر دو فریقین بذریعہ دستاویز ہذا اقرار کرتے اور لکھ دیتے ہیں کہ: 1 فریق اول مذکور نے گاڑی مذکورہ کا جملہ زرثمن مبلغ پینتالیس لاکھ اسی ہزار(RS 45,80,000) بذریعہ پےآرڈر نمبر 74283170 بجاریہ فیصل بنک اسلامی ڈی ایچ اے فیز 11 اسلام آباد فریق دوئم نے فریق اول کو ادا کر دیا ہے.

اقرار نامہ میں یہ بھی درج ہے کہ؛ فریق اول مذکور نے گاڑی مذکورہ بالا تمام اصل کاغذات فریق دوئم کے قبضے میں دے دی ہے۔ فریق دوئم مذکور نے بھی گاڑی متذکرہ بالا درست چالو حالت میں لے لی ہے۔یہ کہ گاڑی مذکورہ کی ٹرانسفر لیٹر فریق اول نے فریق دوئم کو دے دی ہے. اقرار نامہ کی شرائط میں لکھا گیا ہے کہ؛ گاڑی مذکورہ مسروقہ یا ٹیمپرڈ ثابت ہوئی تو یا اس کی ملکیت میں یا کاغذات میں کوئی سقم ثابت ہوا تو فریق اول مذکور وصول کردہ زرثمن فوری طور پر فریق دوئم مذکور کو بمہ خرچہ و ہرجہ ادا کرنے کا ذمہ دار ہو گا شرائط کے مطابق؛ 2022۔09۔29 سے پہلے گاڑی متذکرہ بالا کی ملکیت کے ہر قسم سقم قانونی وغیرہ و سابقہ جملہ ،لین دین، چالان، ٹوکن، ایکسیڈنٹ وغیرہ ہر قسم غیر قانونی فعل کا فریق اول ذمہ دار ہو گا اور اس کے بعد کے جملہ لین دین، چالان، ٹوکن ،ایکسیڈنٹ وغیرہ ہر قسم غیر قانونی فعل کا فریق دوئم مذکور ذمہ دار ہو گا۔
پولیس کا مؤقف
اسلام آباد پولیس نے اس حوالے سے اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ عمران اللہ خان نے خود اس شخص کے حوالے اپنی گاڑی کی تھی اور اب ان کی شکایت پر ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے جبکہ پولیس تحقیقات کررہی ہے اور قانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔
بینک ڈرافٹ کیا ہے؟
بینک افراد اور کاروباری اداروں کو سامان اور خدمات کے لۓ ادائیگی کرنے اور ٹرانزیکشن کو حل کرنے کے لۓ کئی سہولت فراہم کرتے ہیں. انہیں میں سے چیک اور بینک ڈرافٹ ادائیگی کی دو طرح کے طریقے ہیں. یہ ادائیگی دونوں میکانیزم ایک بینک کے ذریعے کئے جاتے ہیں پہلے نمبر پر چیک جاری کیا جاتا ہے جو بینک کے اکاؤنٹ ہولڈر سے بینک کو حکم دیتا ہے کہ وہ مقرر کردہ شخص کو مخصوص ادائیگی کرنے کے لۓ مقرر کردہ نقد رقم ادا کردے یہ طریقہ انفرادی یا پارٹی کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے تاہم، چیک کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے کیونکہ چیک جس اکاؤنٹ سے جاری کیا گیا اس میں رقم ہی نہ ہو لہزا دوسرے نمبر پر بینک کسٹمر کی درخواست پر ایک ڈرافٹ جاری کرتا ہے اور اس کی ضمانت ہوتی ہے اور یہ بڑی کاروباری سطح یا پھر جب آپ کسی نامعلوم شخص سے لین دین کا معاملہ کررہے ہوتے تو یہ کام آتا ہے. لیکن میں بھی ایک مسئلہ ہے جیسا کہ عمران اللہ خان کے ساتھ ہوا ہے کہ بینک ڈرافٹ جھوٹا نہ ہو، اگر بینک ڈرافٹ جعلی نہیں ہے تو پھر اس میں دھوکہ کے امکان بہت ہی کم ہیں.

Leave a reply