کم عمری کی شادیوں پر رپورٹ جاری کردی
رپورٹ میں بچوں کی کم عمر میں ہونیوالی شادیوں کے محرکات، اسباب اور اثرات پر روشنی ڈالی گئی
اسلام آباد: شراکت پارٹنر شپ فار ڈویلپمنٹ نے کم عمری اور جبری بچوں کی شادی کے متاثرین کے ملک گیر سروے کے حوالے سے "شیٹرڈ ڈریم” کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی۔ رونمائی کی تقریب میں حکومتی عہدیداران، بچوں کے حقوق کے سرگرم کارکنان نیشنل کمیشن آن سیٹس آف و یمن، سماجی بہبود کے نمائندوں ، ماؤں ، نوجوان خواتین اور مردوں نے شرکت کی۔
بچوں کی جبری اور کم عمری کی شادی ملک میں ایک اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ جس کی بنیادی وجوہات میں غربت، عدم مساوات، معیاری تعلیم تک رسائی کی کمی، محدود زندگی کے انتخاب، سماجی اصول اور مذہبی عقائد شامل ہیں۔ کم عمری کی شادی میں کمی کے لیے متعدد شعبوں سے کوشش اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ تحقیقی رپورٹ میں جبری اور کم عمری کی شادی کے نتائج کے طور پر منفی معاشی استحکام، ازدواجی سکون، ذہنی صحت اور ماں اور بچے کی صحت کو اجاگر کیا ہے۔شادی کے وقت نہ صرف متاثرین کم عمر ہوتے ہیں بلکہ جب دلہا دلہن کی رضا مندی کی بات آتی ہے تو والدین یا سرپرستوں کی بالادستی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ حقیقی معنوں میں دلہا اور دلہن کی رضا مندی نہیں لی جاتی۔
تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سب سے بڑا مسئلہ قانون پر عمل درآمد کا تھا۔ عوام میں اس مسئلے کے ساتھ ساتھ "چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ” کے بارے میں کم آگاہی، بچوں کی شادی کے قوانین کے نفاذ کے لیے یک اہم چیلنج کے طور پر اجاگر کیا گیا۔ اس کے علاوہ، شادی ایک نجی معاملہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی کم عمری اور جبری شادی کی بروقت رپورٹنگ میں مزید رکاوٹ پیدا ہوئی ۔ متعلقین نے روشنی ڈالی کہ وہ صوبے جہاں بچوں کی شادی کا قانون سولہ سال تھا۔ وہ دلہا ، دلہن کے شناختی کارڈ کی شرط سے متصادم ہے کیونکہ شناختی کارڈ اٹھارہ سال کی عمر میں جاری کیا جاتا ہے۔ مزید برآں ، نمائندوں نے روشنی ڈالی کہ قوانین تو موجود ہیں ، لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزور اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے عمل درآمد نہ ہو سکا۔ پیدائش کے وقت 60 فیصد سے 70فیصد بچوں کے غیر رجسٹرڈ ہونے کا مسئلہ بھی ایک چیلنج کے طور پر اٹھایا گیا۔کیونکہ شادی کے اندراج کے وقت عمل کی تصدیق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
فرح ناز، کنٹری ڈائریکٹر گین اور حقوق نسواں کی کا رکن نے بتایا کہ تمام کم عمری کی شادیاں درحقیقت جبری شادیاں ہیں کیونکہ کم عمر ہونے کی وجہ سے دلہا اور دلہن کی رضامندی درست نہیں ہے۔ جناب صفدر رضا، ممبر بورڈ آف ڈائریکٹر ، شراکت نے بچوں کے حقوق کے حوالے سے کئے گئے اپنے کام اور تجربے کے بارے میں آگاہ کیا۔ محترمہ آسیہ ناصر، سابق ایم این اے نے اقلیتی گروپوں پر کم عمری اور جبری شادی کے اثرات کی نشاندہی کی۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کی پروفیسر ڈاکٹرہادیہ ماجد جو کہ اس رپورٹ کی مرکزی تحقیق کار ہیں، سیاسی صورتحال کے باعث اسلام آباد کا سفر نہیں کر سکیں۔
شراکت -پارٹنر شپ فار ڈویلپمنٹ کی بانی بلقیس طاہرہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس عمل میں کمی نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم نے لڑکیوں پر توجہ نہیں دی۔معاشرے کے سماجی رویوں کو بدلنے میں نسلیں لگ جاتی ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ تعلیم ایک نسل کو بدلنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم اسکول کی غیر حاضری اور ڈراپ آؤٹ کی وجوہات بھی جانتے ہیں، یعنی نقل و حرکت اور رسائی کے مسائل، WASH کی سہولیات وغیرہ۔ یہ ایک ترجیحی مسئلہ ہے اور سماجی نظام پر توجہ نہ دے کر ہم کم عمری کی شادی کو ایک دائروں کی شکل دے دیتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ کم عمری کی شادی کے اس مسئلے کے خاتمے کے لیے صحت کی اچھی سہولیات ، خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات، اسکولوں ، وکلاء اور پولیس کی حساسیت کی پیروی کے ساتھ ریاست کی ملکیتی مہم ہونی چاہیے۔سول سوسائٹی ادارےاور دیگر متعلقین بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن پالیسی ساز اداروں کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
جنسی طور پر ہراساں کرنے پر طالبہ نے دس سال بعد ٹیچر کو گرفتار کروا دیا
غیر ملکی خاتون کے سامنے 21 سالہ نوجوان نے پینٹ اتاری اور……خاتون نے کیا قدم اٹھایا؟
بیوی طلاق لینے عدالت پہنچ گئی، کہا شادی کو تین سال ہو گئے، شوہر نہیں کرتا یہ "کام”
50 ہزار میں بچہ فروخت کرنے والی ماں گرفتار
ایم بی اے کی طالبہ کو ہراساں کرنا ساتھی طالب علم کو مہنگا پڑ گیا
تعلیمی ادارے میں ہوا شرمناک کام،68 طالبات کے اتروا دیئے گئے کپڑے
خاتون پولیس اہلکار کے کپڑے بدلنے کی خفیہ ویڈیو بنانے پر 3 کیمرہ مینوں کے خلاف کاروائی