پنجاب میں نگران حکومت کی قیاس آرائیاں

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب میں نگران وزیر اعلی کے لیے حکومت اور اپوزیشن نے تین، تین نام گورنر کو بھجوانے ہیں اتفاق نہ ہونے پر پارلیمانی کمیٹی فیصلہ کرے گی پھر بھی اتفاق نہ ہوا تو معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا ان کے نامزد نگران سیٹ اپ کو عدالت میں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے.

خیال رہے کہ وزیرِ اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی جانب سے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کے بعد اب پنجاب میں نگران حکومت کے لیے کچھ ناموں پر غور شروع ہو گیا ہے جب کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ جبکہ یہ سوال بھی موضوعِ بحث ہے کہ کیا وفاقی حکومت تحریکِ انصاف کے ساتھ مل بیٹھ کر ملک بھر میں بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ پر رضا مند ہو جائے گی یا دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پہلے ہوں گے۔

صحافی الیاس رانا کے مطابق ناصر کھوسہ کا نام عمران خان نے 2018 کے نگران وزیراعلی کیلئے بھی دیا تھا اور قریب تھا کہ ان کا نام حتمی طور پر متفقہ ہو جاتا تو ان کانام عمران خان نے واپس لے لیا جبکہ نصیر احمد خان ق لیگ کی حکومت میں وزیر صحت تھے یہ چوہدری پرویز الہی کے انتہائی قریبی لوگوں میں سے سمجھے جاتے ہیں.

واضح رہے کہ پرویز الہی نے 3 ناموں جس میں احمد نواز سکھیرا، نصیر خان اور ناصر سعید کھوسہ کے ناموں کا فیصلہ ہوا تھا جبکہ نگران وزیر اعلی پنجاب کے تقرر کیلئے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الہی نے ملاقات کی تھی جس میں ایم این اے حسین الہی بھی موجود تھے اس دوران پنجاب کے نگران وزیر اعلی کے تقرر کے لئے نام تجویز کرنے کے معاملے پر تفصلی طور پر مشاورت کی گئی تھی.

 ذرائع کے مطابق عمران خان نے پی ٹی آئی اجلاس میں زیر بحث آنے والے ناموں کے بارے وزیر اعلی پنجاب کو آگاہ کیا اور چودھری پرویز الہی سے نگران وزیر اعلی کے نام کیلئے رائے لی جبکہ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلی پنجاب چودھری پرویز الہی نے کہا تھا کہ پیر یعنی آج کو مسلم لیگ ق کی پارٹی کا اجلاس ہو گا اور ہم نے گورنر کو نام دینے ہیں۔

گزشتہ دنوں سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے عالمی ادارے کو بتایا تھا کہ اب اُنہیں پنجاب میں عام انتخابات ہی نظر آ رہے ہیں کیوں کہ اب گورنر پنجاب سمری پر دستخط نہ بھی کریں تب بھی پنجاب اسمبلی خود بخود تحلیل ہو جائے گی۔ گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اب پنجاب میں نگران سیٹ اپ پر بات ہو گی۔ جبکہ سینئر تجزیہ کار افتحار احمد کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پرویز الہٰی نے کسی کے دباؤ میں آکر اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کیے ہیں کیوں کہ اسمبلی تحلیل کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ جمہوری ملکوں میں وقت سے پہلے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا کوئی نہ کوئی عذر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن پنجاب اسمبلی توڑنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔

تاہم یہ چیزیں ابھی واضح نہیں ہوئی ہیں لیکن سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ تحریکِ انصاف جیت گئی ہے تو وہ سیاسی مخالفین کے حوالے سے مزید جارحانہ پالیسی اختیار کررہی ہے اور وفاقی حکومت کے ساتھ محاذ آرائی جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ اگر یہ لوگ نگران سیٹ اپ پر راضی ہوجاتے ہیں تو پھر اس کے بعد فورا الیکشن ہونے چاہئے تاکہ ملک میں بہتری آئے.
مزید یہ بھی پڑھیں؛
کنگ عبدالعزیز سٹریٹ دنیا کی سب سے طویل خطاطی والی دیوار بن گئی
سعودی عرب میں افراطِ زرکی شرح 3.3 فی صد؛ مکانات کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ
کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں تاخیر ،پیپلز پارٹی آگے
پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن نے دھاندلی کے سارے ریکارڈ توڑے ہیں: مسرت جمشید
دوسری جانب صحافی محسن بیگ نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمن سے سوال کیا ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوچکی نگران سیٹ اپ پر مشاورت جاری ہے تو پھر زمان پارک کے فسادی گھڑی چور مکین کو کس قانون کے تحت سینکڑوں پنجاب پولیس اہل کار سکیورٹی دے رہے ہیں؟ سیکیورٹی پرکروڑوں کے بھاری اخراجات اس توشہ چور سے وصول کیے جائیں۔

Shares: