موبائل بندش سے نتائج تاخیر کا شکار،دھاندلی بھی ہوئی، الیکشن کمیشن کی تصدیق

ecp

عام انتخابات، الیکشن کمیشن نے دھاندلی کی تصدیق کر دی، امیدواروں کو متعلقہ فورم جانے کامشورہ دے دیا

عام انتخابات آٹھ فروری کو ہوئے، آزاد امیدوار، جماعت اسلامی،پیپلز پارٹی، تحریک لبیک سمیت متعدد جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی، آراوز نے گنتی کے وقت امیدواروں کو نکال دیا،دھاندلی کے خلا ف ملک گیر احتجاج بھی جاری ہے،کئی شہروں میں احتجاج کرنیوالوں کےخلاف مقدمے بھی درج ہوئے، گرفتاریاں بھی ہوئیں اب الیکشن کمیشن نے تسلیم کر لیا ہےکہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تا ہم اکا دکا واقعات سامنے آئے،

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ "انتخابات کے انعقاد سے پہلے اور انتخابی عمل کے دوران الیکشن کمیشن کو بے پناہ چیلنجز درپیش تھے جن سے عہدہ براء ہونے کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف اقدامات عمل میں لائے گئے۔اس حوالے سے یہ بات زبان زدعام تھی کہ انتخابات کا انعقاد مقررہ تاریخ پر نہیں ہو پائے گا۔ الیکشن کمیشن نے اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے تمام ممکن عملی اقدامات کیے اور انتخابات مقررہ تاریخ پر کروائے۔8 فروری کے انتخابات کے کامیاب انعقاد کے لیے الیکشن کے عمل کو پرامن اور منظم رکھنا، پولنگ عملے کی زندگیوں کی حفاظت کو یقینی بنانا، پولنگ میٹریل کی بحفاظت نقل و حمل کو محفوظ بنانا اور درست نتائج کی ترتیب و تدوین انتہائی اہم ترجیحات تھیں جنہیں بقیہ تمام عوامل پر مقدم رکھا گیا اور سیکیورٹی کے چیلنجز کے باوجود پر امن پولنگ کے انعقاد کو یقینی بنایا گیا۔نتائج میں تیزی کی خاطر انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالنا یا نتائج کی درستگی کو مشکوک بنانا نامناسب تھا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کے واقعات بالخصوص انتخابات کے نزدیک مختلف مقامات پرسیکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں کی شہادت نے انتخابات کے انعقاد کو ایک چیلنج بنا دیا۔ایسی صورت حال میں انتخابی عمل اور بالخصوص نتائج کی تیزی کے لیے انسانی جانوں کو خطرات میں جھونکنے سے پورے انتخابی عمل کے سبو تاژ ہونے کا خطرہ موجود تھا جس کے تدارک کے لیے ترجیحی اقدامات کیے گئے۔سیکیورٹی اداروں کے مشورہ پر وفاقی حکومت کی جانب سے موبائل فون کی بندش کے علاوہ پولنگ کے عمل کو پرامن اورمنظم رکھنے اور پولنگ عملے اور پولنگ میٹریل کی حفاظت کے لیے گروپوں کی صورت میں سیکیورٹی کے حصار میں نقل و حمل کو یقینی بنایا گیا۔ تاہم موبائل نیٹ ورک کی عدم دستیابی کے باعث رابطہ نہ ہونے، پولنگ سٹیشنوں کے طویل فاصلوں اور دور دراز جگہوں پر واقع ہونے، رات کے اندھیرے میں سفر ،بعض علاقوں میں موسم کی شدت اور برف کی موجودگی اور بعض مقامات پر شاہراؤں پر ہارنے والے امیدواروں کے حامیوں کے جانب سے دھرنے دیے جانے کے باعث پولنگ عملے کو نقل و حمل میں مشکلات پیش آئیں۔بلوچستان کے بعض علاقوں میں پولنگ عملے اور پولنگ میٹریل کی نقل و حمل کے لیے ہیلی کاپٹر بھی استعمال کرنا پڑے۔ملک کے کئی حصوں میں سیکیورٹی کی صورت حال اور کوآرڈی نیشن میں آسانی کے لیے پانچ سے چھ ریٹرننگ آفیسرز کے دفاتر ایک ہی جگہ پر بنائے گے تاہم ان دفاتر پر جہاں پولنگ عملے کی آمد سے رش بڑھا وہاں کئی جگہوں پر ریٹرننگ آفیسرز کے دفاتر کے سامنے بے پناہ ہجوم بھی اکٹھا ہوا جس کے باعث پولنگ عملے کو پولنگ میٹریل جمع کرانے میں مشکلات پیش آئیں جن کا انتخابی نتائج کی ترتیب و تدوین پر بھی فرق پڑا۔تاہم یہ امر قابل ذکر ہے کہ جن علاقوں میں انتخابی نتائج میں تاخیر بھی ہوئی وہاں نتائج کا ملا جلا رحجان رہا اور کسی ایک جماعت کو کسی طور پر فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا۔EMS کا بنیادی کام R.O. کے دفاتر میں پریزائیڈنگ آفیسرزکے ذریعے جمع کرائے گئےنتائج کی تیاری اور تدوین تھا اور فارم۔47 (غیر حتمی نتیجہ) تیار کر کے نتائج کا اعلان کرنا تھا۔پریزائیڈنگ آفیسرز کو پولنگ سٹیشن پر فارم۔45 تیار کر کے اسے اپنے موبائل فون کی مدد سے الیکٹرانک طریقے سے اپنے آر او کو بھیجنا تھا۔نیز الیکشنز ایکٹ2017 کے سیکشن 90 کے تحت پریزائیڈنگ آفیسر نے اپنے ریٹرننگ آفیسر کے دفتر ذاتی طور پر پہنچنا تھا۔یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ آ ر اوکے دفاتر میں نصب ای ایم ایس کا نظام کنیکٹوٹی پر منحصر نہیں تھا اور ای ایم ایس نے آر او کے دفتر میں تسلی بخش کام کیا۔ تاہم پریزائیڈنگ آفیسرز کے فونز میں انسٹالڈ ای ایم ایس موبائل ایپ کو فارم۔45 الیکٹرانک طور پر بھیجنے کے لیے سیلو لر کنیکٹوٹی کی ضرورت تھی۔چونکہ سیلولر سگنلز کو سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا تھا اس لیے پریزائیڈنگ آفیسرز، ریٹرننگ آفیسرز کو الیکٹرانک ڈیٹا بھیجنے سے قاصر رہے۔مزید یہ کہ معمول کی کوآرڈی نیشن اور انتظامی نقل و حمل کے مجموعی عمل کو موبائل سگنلز کی بندش نے بری طرح متاثر کیا، جو کہ مزید تاخیر کا باعث بنا۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ 2018ء کے جنرل الیکشن میں پہلا نتیجہ صبح 4 بجے موصول ہوا جبکہ 2024ء میں پہلا نتیجہ رات 2 بجے موصول ہوا۔اسی طرح 2018 میں نتائج کی تدوین تقریباً 3 دن میں مکمل ہوئی جبکہ اس مرتبہ کچھ حلقوں کے علاوہ ڈیڑھ دن میں انتخابی نتائج مکمل ہوئے۔ان مشکلات اور مسائل کے باوجود الیکشن کمیشن 8 فروری کو الیکشن کے عمل کو پرامن اور منظم رکھنے میں کامیاب رہا۔یہ ایک بہت بڑا آپریشن تھا جو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا جس کا اعتراف سول سوسائٹی تنظیموں، مقامی و عالمی مبصرین اور میڈیا نے بھی کیا اور پولنگ کے انتظامات، پولنگ عملے کی تربیت، پولنگ سٹیشنوں پر نظم و ضبط اور عوام کی ایک بڑی تعداد کے ووٹنگ کےعمل میں شریک ہونے کو سراہا جو انتخابی عمل کی کامیابی کی دلیل ہے”.

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ "الیکشن کمیشن انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو یکسر مسترد کرتا ہے تاہم اکا دکا واقعات سے انکار نہیں جس کے تدارک کے لیے متعلقہ فورمز موجود ہیں اور الیکشن کمیشن ان دنوں میں بھی دفتری اوقات اور دفتر کے بعد بھی دیر تک ایسی شکایات کو وصول کر رہا ہے اور ان پر فوری فیصلے بھی کیے جا رہے ہیں۔الیکشن کمیشن انتخابات کے پرامن انعقاد پر نگران وفاقی حکومت، نگران صوبائی حکومتوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، پاک فوج، دیگر اداروں اور پولنگ سٹاف کا شکریہ ادا کرتا ہے”۔

نومئی جیسا واقعہ دوہرانے کی تیاری، سخت ایکشن ہو گا، محسن نقوی کی وارننگ

آر او کے دفاتر میں دھاندلی کی گئی، پولیس افسران معاون تھے،سلمان اکرم راجہ

دادا کی پوتی کے نام پر ووٹ مانگنے والے ماہابخاری کا پورا خاندان ہار گیا

پی ٹی آئی کو مرکز اور دو صوبوں میں موقع نہ دیا گیا تو حکومت نہیں چل سکتی،بابر اعوان

الیکشن کمیشن، اسلام آباد کے حتمی نتائج جاری، کئی حلقوں کے نتائج رک گئے

الیکشن کمیشن ، ریحانہ ڈار کی درخواست پر آر آو کو نوٹس جاری،جواب طلب

این اے 58، ایاز امیر کی درخواست، نوٹس جاری، آر او طلب، نتیجہ روک دیا گیا

Comments are closed.