عادتوں کا اس حصار — ریاض علی خٹک

0
29

پرندے پالنے والا ایک شخص اپنے پنجرے کا دروازہ کھول دیتا. پرندے ہوا میں اڑنے لگتے وہ انکا بڑا سا پنجرا صاف کرتا پانی اور دانہ ڈالتا اور پرندے سارے واپس پنجرے میں آجاتے. یہ دروازہ بند کر لیتا. میں نے ایک بار پوچھا ان کو یہ عادت کیسے دی.؟ اُس نے بتایا پنجرے کا دروازہ کھولنے سے پہلے انکا پیٹ نہیں بھرا جاتا. یہ خالی پیٹ جب اڑتے ہیں تو بھوک ان کو یاد دلاتی ہے کہ پیٹ بھرنے کا سامان پنجرے میں ہے. یہ واپس آجاتے ہیں.

یہی حال ہماری عادتوں کا بھی ہوتا ہے. قرآن شریف میں ہے خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍؕ-سَاُورِیْكُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ(۳۷) یعنی” آدمی جلد باز بنایا گیا۔ اب میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا تومجھ سے جلدی نہ کرو” جلد بازی کا عنصر ہماری فطرت کا عنصر ہے. ہم اپنے فیصلے فوری نتائج فوری تسکین اور فوری تسلی اطمینان کیلئے کرتے ہیں. اور یہ پھر ہماری عادت بن جاتی ہے.

عادتوں کے اس حصار کو آپ پنجرا کہہ لیں اسے کمفرٹ زون کہہ لیں یا اپنی شخصیت ہم جب اس کے قابو میں آتے ہیں تو یہ ہم سے صبر اور اپنے نفس کے خلاف مزاحمت چھین لیتی ہے. ہم ان خواہشات کے اسیر ہو جاتے ہیں جو وقتی تسکین تو بن سکتی ہیں لیکن دوررس کامیابی نہیں. ہم خود بھی اسے مانتے ہیں لیکن خود سے جیت نہیں سکتے.

پرندے بھی تیار دانہ چھوڑ کر تلاش کی ہمت چھوڑ دیتے ہیں اسی لئے اس پنجرے کو اپنا نصیب سمجھ لیتے ہیں. ہم بھی عادات کی فوری تسکین چھوڑ کر نئی تلاش اور اس کی ہمت و مشقت سے گھبرا کر واپس اپنے حول میں بند ہو کر اسے اپنا نصیب سمجھ لیتے ہیں. عادت کے قیدی کے پاس نکلنے کا بس ایک ہی راستہ ہوتا ہے یہ صبر و ہمت کا راستہ ہے.

Leave a reply