آج کا معاشرہ اور والدین کا کردار.تحریر :یاسر خان بلوچ

0
44
نوجوان جوڑے کو برہنہ کرنے کا کیس،ریاست کو مدعی بننا چاہئے،صارفین

آجکل ہم آئے دن سوشل میڈیا پر جنسی استحصال کا سنتے ہیں۔اور یہی وہ سب سے بڑی غلطی ہے جسمیں والدین غفلت کا شکار ہیں۔جسمیں ان کی اولادیں بلیک میلنگ جیسے گھٹیا کاموں میں ذلیل ہو رہے ہیں خواہ وہ جنسی، جسمانی، مالی اور ذہنی استحصال ہو۔اور کچھ عرصے سے ایسے واقعات ہوئے ہیں جسمیں حقیقت والدین کے سامنے کھل کر آ گئی ہو گی۔
سب سے پہلے ہمیں اس غلط فہمی سے باہر آنا ہو گا کہ ہمارے بچے محفوظ ہیں۔ہمیں اپنے بچوں پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے نچوں کی ذہنی، جسمانی، اور جنسی ضرورتوں کے بارے میں خیال رکھنا ہو گا۔والدین کو کھل کر اس کے متعلق اپنے بچوں سے بات کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر لڑکیوں سے۔کسی بھی سنگین غلطی کے بعد بلیک میل ہونے کیلئے تیار ہونا بھی ایک سنگین غلطی ہے۔
ہمیں یہ بات اب سمجھ لینی چاہیے کے باہر ایسے خونخوار اور بیہودہ قسم کے بھیڑیے (عثمان مرزا) گھوم رہے ہیں جو کبھی بھی ہماری نسل پر حملہ کر سکتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں دوستی کے نام پر ایک ٹرینڈ بنا ہوا ہے انسان کے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ دل میں ایک جگہ بنتی جاتی ہےجسے وہ فرینڈ شپ سے پورا کرنا چاہتا ہے۔اسی فرینڈ شپ سے وہ ایک معاشرے تک پہنچتا ہے۔ اور جب تک اسے پتا چلتا ہے کہ یہ کیسا معاشرہ ہے تو وہ اسکی دلدل میں پھنس چکا ہوتا ہے اور اس سے نکل نہیں سکتا۔پھر یہ معاشرہ یا تو اسے نشے پہ لگا دیتا ہے یا تو اسے گندگی میں گاڑھ کر رکھ دیتا ہے۔ پھر اسے جرائم پیشہ عناصر میں ملوث کروا دیتا ہے۔

اکثر والدین کو یہ زعم ہوتا ہے کہ ان کی اولاد کا کردار بہت پختہ ہے اور انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ کس سے مل رہے ہیں؟ کس کے ساتھ بیٹھ رہے ہیں؟ کون سی محفل میں ان یا آؤٹ ہو رہے ہیں؟ گھر کب آ رہے ہیں؟ کیونکہ وہ اس یقین میں رہتے ہیں کہ ان کی اولاد ایسا کر ہی نہیں سکتی۔
مگر افسوس کے ساتھ جب تک انہیں ان کے پختہ کردار کا علم ہوتا ہے تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔تب وہ سوائے اپنی آنکھوں سے اشک بہانے کے کچھ نہیں کر سکتے۔ جب تک انہیں معلوم ہوتا ہے تب تک وہ اس گندگی میں اتنے پھنس چکے ہوتے ہیں کہ نکلنا مشکل ہوتا ہے۔
حالیہ واقع میں عثمان مرزا اور اسکے ساتھی جس جوڑے کی ویڈیو بناتے ہیں وہ ایک سال پہلے کی ہے اور اطلاعات کے مطابق اس جوڑے کو پانچ سے چھ دفعہ بلیک میل کر چکے ہوتے ہیں۔ اور میرے مطابق ایسے واقعات جن وجوہات کی بنا پر رونما ہو رہے ہیں ان میں سب سے بڑی وجہ اپنے بچوں کیلئے والدین کا ٹائم نہ نکالنا ہے۔ اور بچوں سے ایسا تعلق نہ بنانے کی وجہ ہے جسمیں آپکے بچے آپکو اپنے بارے میں کھل کر بتا سکتے ہوں۔
آپ خود سے یہ سوال کریں کہ کیا آپ اپنی بیٹی یا بہن سے ان کے جسمانی تعلق کے متعلق بات کرنے کو تیار ہیں؟ کیا آپ اسکی ذہنی، نفسیاتی تعلق کے متعلق بات کرنے کیلئے تیار ہیں؟ معاشرہ اور لوگ اسکا تماشہ لگائیں اسے ذلیل کریں اس سے بہتر ہے کہ آپ اس سے پہلے ان سے اس کے متعلق بات کریں۔
ہمیں پاکستان میں ایسا قانون نافذ کروانے کی ضرورت ہے جسمیں ایسے بھیڑیوں کیلئے سنگین سزائیں رکھی جائیں تاکہ آنے والی نسلیں بھی اسطرح کے جرائم سے دور رہیں۔
ماں باپ، معاشرہ، تعلیمی ادارے اور مساجد و مدارس کی سطح پر اس حوالے سے آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے بچے محفوظ رہیں۔
ہمارا معاشرہ اس حد تک گر چکا ہے۔اور ہمیں اس گندگی کو صاف کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اگر ہم نے یہ نہ کیا تو یہ گندگی آج نہیں تو کل ہم تک بھی پہنچ سکتی ہے۔اور پھر پچھتانے کو کچھ نہیں بچے گا۔

Leave a reply