اور اب ترک ہمیں بتائیں گے کہ ہمارا دوست اور دشمن کون ہے ؟ از طہ منیب

گزشتہ رات سے ٹویٹر پاکستان پر #BoycottUAE کا ٹرینڈ ٹاپ پر ہے۔ اس ٹرینڈ پر کی گئی ریسرچ کے مطابق صبح سحری تک صرف تین ہزار ٹویٹس ہوئیں تھیں، اس ٹرینڈ کو شروع کرنے والے ترک ایکٹوسٹس اور حیران کن طور پر انڈین ٹرولز (جن میں بطور خاص میجر ریٹائرڈ گورو جو گزشتہ دنوں بلوچستان میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں سے متعلق اپنے پاکستان مخالف بیانات پر خبروں میں تھے) کے اکاؤنٹس تھے جنہیں ابتدائی طور پاکستان کی لوکیشن سے کچھ فیک اکاؤنٹس کی مدد حاصل تھی جبکہ بعد ازاں کچھ اصلی اکاؤنٹس بھی اسکا حصہ بن گئے جن کی بنیاد پر یہ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ۔

https://twitter.com/alikeskin_tr/status/1262757587721715712?s=19

https://twitter.com/alikeskin_tr/status/1262890377780121602?s=19

https://twitter.com/alikeskin_tr/status/1262900340271259649?s=19

ترکی کے اکاؤنٹس کی جانب سے متحدہ عرب امارات کو پاکستان سمیت امت مسلمہ ، پاکستان ، کشمیر و فلسطین کا دشمن جبکہ کافروں کا دوست بتایا جا رہا تھا۔ جبکہ بھارتیوں کی جانب سے گزشتہ دنوں عرب ایکٹوسٹس کی جانب سے کی گئی بھارت مخالف مہم (جس میں انڈین مسلمز اور کشمیریوں کی حمایت کی گئی جس پر متحرہ عرب امارات میں مقیم بھارتی سفیر ، وزیر خارجہ وزیر مودی تک کی جانب سے وضاحتیں دی گئیں ) کی تعریفوں کو مزاق کا نشانہ بنایا گیا ہے یہی پاکستان چند دن پہلے عربوں کی حمایت میں بڑی بڑی باتیں کر رہے تھے اور آج ان عربوں کے خلاف بائکاٹ کا ٹرینڈ کر رہے ہیں۔

گزارش یہ ہے کہ یہ ترک اب اپنی پاکستانی فالوونگ کو پاک عرب دوستی کے درمیان دراڑیں ڈالنے کیلئے استعمال بھی کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ اور ارطغرل کے زیر اثر پروان چڑھتے پاکستانی جوان ایک ڈرامہ کو بنیاد بنا پر طیب اردوغان کو مستقبل کا خلیفتہ المسلمین سمجھتے ہوئے ترکوں کے پیچھے عربوں کے خلاف مہم کا حصہ بن گئے۔ تاہم کچھ پاکستانیوں کی جانب سے اس ٹرینڈ کی مخالفت بھی کی جا رہی جن میں غالباً قاضی حسین احمد کے بیٹے محمد ابراہیم قاضی بھی شامل جنہوں نے پاکستان متحدہ عرب امارات برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے اس ٹرینڈ کی مخالفت کی۔

https://twitter.com/miqazi/status/1262825609010524161?s=19

سوال یہ ہے کیا ہم پاکستانیوں نے ہمیشہ عربوں،ایرانیوں اور ترکوں کے پیچھے لگ کر ہی خوش ہونا ہے یا اپنی بھی عقل سمجھ کو استعمال کرتے ہوئے متناسب و متوازن موقف رکھنا ہے۔
جہاں تک پاکستان کی خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو اسکی تاریخ تمام برادر اسلامی ممالک سے برابری اور دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر ہے جو آئندہ بھی یقینا اسی بنیاد پر چلنی ہے۔
جذباتی پاکستانی ترکوں کے چند بیانات کی بنیاد پر عربوں کو گالی تو دے رہے لیکن یہ نہیں سمجھ رہے کہ چالیس لاکھ پاکستانیوں کی روزی روٹی ان ممالک سے وابستہ ہے جو ہر سال اربوں روپے زرمبادلہ پاکستان میں بھیجتے ہیں۔ ترکوں کو
ایک برادر اسلامی ملک میں نئی تفریق پیدا کرنے پر کم از کم شرم کرنی چاہیے اور حکومت پاکستان ترک سفارت خانے سے رابطہ کر کے باقاعدہ یہ معاملہ اٹھائے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مسلم ملکوں سے متعلق خارجہ محاز پر ہمارے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ، عوامی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کی گئی مہمات بہرحال ایک اثر رکھتی ہیں اس پر بند باندھنا لازم ہے۔ پاکستانی عوام کو عربوں و ایران کے بعد ترکوں کو اپنا مائی باپ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ہم پاکستانی ہی بہتر ہیں۔

Comments are closed.