یہ ماننا پڑے گا کہ امریکی فوج میں بھی انتہا پسند عناصرموجود ہیں : پینٹا گون

0
74

واشنگٹن : یہ ماننا پڑے گا کہ امریکی فوج میں بھی انتہا پسند عناصرموجود ہیں : امریکہ کے محکمہ دفاع (پینٹاگون) نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ امریکی فوج کے تقریباً 100 ارکان نے گذشتہ ایک سال کے دوران کسی نہ کسی قسم کی ’ممنوعہ انتہا پسندانہ سرگرمی‘ میں حصہ لیا۔

پینٹاگون کے سربراہ لائیڈ آسٹن نے فروری 2021 میں اپنی صفوں کے اندر انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے سے متعلق محکمہ دفاع کی پالیسیوں پر نظرثانی کا حکم دیا تھا۔

یہ فیصلہ اس انکشاف کے بعد کیا گیا تھا کہ امریکی فوج کے درجنوں سابق ارکان نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے رواں برس چھ جنوری کو امریکہ میں کیپٹل ہل پر حملے میں حصہ لیا تھا۔

لائیڈ آسٹن نے پیر کو انتہا پسندانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے سے متعلق ورکنگ گروپ کی رپورٹ جاری کرنے کے ساتھ ایک بیان میں کہا کہ محکمہ دفاع سے منسلک مردوں اور خواتین کی بھاری اکثریت اس ملک کی عزت اور دیانت داری کے ساتھ خدمت کرتی ہے

لائیڈ آسٹن نے کہا کہ وہ اس حلف کا احترام کرتے ہیں جو انہوں نے امریکہ کے آئین کی حمایت اور دفاع کے لیے اٹھایا تھا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں حصہ لے کر صرف چند لوگ اس حلف کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

دوسری جانب پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا: ’جائزے سے پتہ چلا کہ گذشتہ ایک سال کے دوران امریکی فوج کے ’تقریباً 100‘ حاضر سروس یا ریزرو اراکین نے ممنوعہ انتہا پسندسرگرمیوں میں حصہ لیا ہے۔

تاہم انہوں نے یہ واضح کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ کس قسم کی سرگرمی میں ملوث تھے لیکن انہوں نے ممنوعہ سرگرمیوں کی مثال کے طور پر حکومت کا تختہ الٹنے یا ’گھریلو دہشت گردی‘ کی وکالت کا حوالہ دیا۔ورکنگ گروپ نے اپنی نئی ہدایات میں مخصوص انتہا پسند گروہوں کی فہرست نہیں دی۔

ان سفارشات میں سروس ممبران کے لیے انتہا پسند سرگرمیوں کے متعلق تربیت اور تعلیم میں اضافہ بھی شامل تھا جبکہ پینٹاگون نے سروس ممبران کے لیے نئی ہدایات بھی جاری کی ہیں۔

جان کربی نے کہا: ’اس میں خاص طور پر سوشل میڈیا کے حوالے سے رہنما اصول شامل ہیں کہ انتہا پسندانہ ممنوعہ سرگرمیوں کے حوالے سے کس چیز کی اجازت ہے اور کس کی نہیں۔‘ امریکی معاشرے کی طرح امریکی فوج بھی برسوں کی تفرقہ انگیز سیاست کے بعد سیاسی دباؤ کا شکار ہے۔

فوج کے ارکان کی ایک چھوٹی سی اقلیت نے ویکسین لگوانے کے احکامات سے انکار کر دیا ہے۔ اور کچھ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے امریکی کیپٹل ہل میں چھ جنوری کو ہونے والے مہلک فساد میں حصہ لیا تھا۔

بائیڈن انتظامیہ نے، جس نے 20 جنوری کو اقتدار سنبھالا تھا، اس فساد کے بعد سال کا بیشتر حصہ انتہا پسندی کی اپنی تعریف واضح کرنے اور انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں کس قسم کی فوجی شرکت کو واضح طور پر ممنوع قرار دینے کے لیے کام کیا اور پیر کے روز نتائج پیش کیے۔

نئی تعریف میں سوشل میڈیا پر انتہا پسند مواد کو لائیک” کرنے سے لے کر فنڈ ریزنگ یا انتہا پسند تنظیم کے لیے مظاہرہ کرنے تک سب کچھ شامل ہے۔ سزا، اگر کوئی ہے، تو وہ مقامی کمانڈر دے سکتے ہیں۔

اس کے باوجود پینٹاگون نے پراؤڈ بوائز سے لے کر اوتھ کیپرز اور کو کلکس کلان تک کسی بھی گروپ میں شمولیت سے روک دیا ہے اور صدر کی حیثیت سے جو بائیڈن کی قانونی حیثیت کے بارے میں بیان دینے سے منع کیا ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ ’اگر ہم انتہا پسند گروہوں کی فہرست لے کر آتے ہیں تو یہ شاید اتنا ہی اچھا ہوگا جتنا کہ ہم نے اسے شائع کیا تھا کیونکہ یہ گروپ تبدیل ہو جاتے ہیں۔

تاہم امریکی دفاعی حکام کا کہنا تھا کہ پیر کو اعلان کردہ پابندیوں کا مطلب یہ ہے کہ ایسے کسی بھی گروپ میں بامعنی اور فعال شرکت ناممکن ہوگی۔

پینٹاگون کے اس اعلان سے چند ہفتے قبل امریکی محکمہ دفاع کے انسپکٹر جنرل نے امریکی سروس ممبران کی انتہا پسندانہ سرگرمی کے 294 الزامات کا حوالہ دیا تھا۔

ان میں چھ جنوری کو امریکی کیپٹل ہل میں غیر قانونی کارروائی کے 10 الزامات اور گھریلو انتہا پسندانہ تشدد میں ملوث ہونے کے 102 الزامات شامل ہیں۔ نسلی بنیادوں پر پرتشدد انتہا پسندانہ سرگرمی کے 70 الزامات اور حکومت مخالف یا اتھارٹی مخالف انتہا پسندی کے 73 الزامات بھی لگائے گئے تھے

Leave a reply