افغان صدارتی محل پر حملہ ، اشرف غنی کے الزامات اور پاکستانی سچ. تحریر: نوید شیخ

اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں بدامنی اور عدم استحکام کا سب سے بُرا اثر پاکستان پر ہی پڑے گا اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کی باقیات اور خفیہ ٹھکانوں کے دوبارہ فعال ہونے کا خدشہ ہے۔ اگرچہ افغان عمل کی کامیابی میں ہم اپنا بنیادی کردار انتہائی سنجیدگی سے ادا کر رہے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی سمجھنا ہو گا کہ ہم اس پورے عمل کے ضامن ہر گز نہیں ہیں اور بالآخر یہ فیصلہ افغان فریقوں ہی نے کرنا ہے کہ انہوں نے آگے کس طرح چلنا ہے، ہم نے بارہا کہا ہے کہ پاکستان میں امن کا افغانستان میں امن و استحکام سے براہِ راست اور گہرا تعلق ہے۔

۔ مگر وہ کہتے ہیں نا کہ ۔۔۔ دم ٹیڑھی ہی رہتی ہے ۔ ایسا ہی کچھ معاملہ افغان حکومت اور خاص طور پر بھارتی کٹھ پتلی اشرف غنی کا ہے ۔

۔ اب اپنے تازہ بیان میں اشرف غنی نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کی حکومت چاہتا ہے۔
پاکستان کا کوئی سیاست دان اپنے ملک میں طالبان کی حکومت کا خواہاں نہیں ہے لیکن وہ ہمارے لیے طالبان کی حکومت چاہتے ہیں،پاکستان کا تمام میڈیابھی طالبان کی حمایت کرتا ہے۔

۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ کبھی یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور کبھی کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی کامیابیوں کو روکنے کے لیے پاکستان افغان حکومت کی مدد کرے اور کبھی یہ خواہش کرتے ہیں کہ پاکستان افغان سیکورٹی فورسز کے ساتھ مل کر اُنہیں کچلے۔

۔ اب روز اشرف غنی کو صرف پاکستان کی یاد آرہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اشرف غنی اب کیوں اپنے
buddy
بھارت سے رابطہ نہیں کرتا ۔ کیوں نہیں ڈیمانڈ کرتا ہے کہ بھارتی فوج کابل میں کھڑے ہوکر انکا دفاع کرے ۔ کیوں نہیں یہ کہتا ہے کہ ۔۔۔ را۔۔۔ آئے اور اس کی حکومت کو طالبان سے بچائے ۔

۔ سچ چاہے کڑوا ہو ۔ پر سچ یہ ہے کہ افغان حکومت کو تو نہ اب کہیں سے پیسہ مل رہا ہے نہ مدد ۔ اور افغان حکومت کی فوج ایسی ہے جیسے ہیجڑوں کی فوج ہو۔ اب یہ سارا ملبہ بھارتی ایماء پر پاکستان پر ڈال رہا ہے ۔ اور صرف ریاست پاکستان ہی نہیں پاکستان کے سیاستدانوں اور صحافیوں تک کو لعن طعن کررہا ہے ۔ جو اس جانب اشارہ ہے کہ افغان حکومت معاملات کو کنڑول کرنے میں بالکل ناکام ہوچکی ہے اور طالبان روکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں ۔

۔ میں آپ سب کو یاد کروادوں کہ حامد کرزئی سے لے کر اشرف غنی تک یہ وہ ہی افغان حکومت ہے جس نے گزشتہ دو دہائیوں سے بھارت کو افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے کھلی چھٹی دی ہوئی تھی ۔ یہ وہ ہی افغان حکومت ہے جس نے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے اپنے ملک میں ٹریننگ سمیت ہر قسم کی مدد دی ۔

۔ سچ یہ ہے کہ ہزاروں پاکستانی شہید ہوئے ہیں ۔ اور اس کے پیچھے افغان اور بھارتی حکومت تھی ۔ ہم نے دہشت گردی کی طویل اور صبر آزما جنگ لڑی ہے۔

۔ 2014ء
میں آرمی پبلک سکول پر بزدلانہ حملے میں تحریک طالبان، را اور این ڈی ایس کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت ملے۔ یہ حملہ افغانستان میں پلان ہوا، اس کے بعد جیسے ریاستِ پاکستان کے صبر کی انتہا ہوگئی۔ چن چن کردہشت گردوں، ان کے آلہ کاروں اور سلیپر سیلز کو ختم کیا گیا، ساتھ ہی ساتھ پاک افغان باڈر کو سیل کرنے کے لیے باڑلگانے کا کام شروع ہوا۔

۔ مغربی سرحد پر حفاظتی باڑ کی تعمیر تقریباً مکمل ہو چکی ہے، نوے فیصد باڑ لگائی جا چکی ہے۔ باقی بھی جلد مکمل ہو جائے گی۔ پاک ایران سرحد پر بھی باڑ لگانے کا کام بہت تیزی سے جاری ہے اس کے علاوہ سرحد پر سینکڑوں حفاظتی چوکیاں تعمیر کی گئیں۔ بارڈر کنٹرول سسٹم اپ گریڈ کیا گیا اور وہاں جدید بائیو میٹرک سسٹم کی تنصیب کی گئی ہے۔ پاک افغان سرحد پر تمام کراسنگ پوائنٹس کو سیل کر دیا گیا ہے۔ قبائلی اضلاع میں ایف سی کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

۔ اور اب جو پاکستان کا موقف ہے وہ اصولی موقف ہے کہ افغانوں نے خود مل کر فیصلہ کرنا ہے کہ کس کی حکومت ہوگی افغانستان میں ۔ اس سے زیادہ پاکستان کیا کرے ۔

۔ پھربھی یہ افغان حکومت مسلسل پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہی ہے ۔ ابھی حالیہ افغان سفیر کی بیٹی والا معاملہ ہی دیکھ لیں ۔ کیسے انھوں نے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی حالانکہ لڑکی اغواء ہوئی ہی نہیں تھی ۔

۔ جیسے اشرف غنی نے سفیر کو واپس بلایا ہے اگر اتنی ہی اس افغان حکومت اور اشرف غنی میں غیرت ہے تو پھر یہ تین ملین افغان مہاجرین جو اب بھی پاکستان میں رہ رہے ہیں ان کو واپس لے جاتی ۔

۔ آپ دیکھیں پاکستان پھر بھی دل بڑا کرکے افغان حکومت کے ساتھ
cooperate
کررہا ہے مگر ۔۔۔ جیسا کہ شروع میں کہا تھا کہ یہ
۔۔۔۔ کی دم سیدھی نہیں ہوتی ۔ یہ ہی حال اشرف غنی کا ہے ۔

۔ ہمسایے میں کچھ بھی ہورہا ہو اس کا اثر اپنے گھر تک آتا ہی ہے ۔ کاش کہ ہم ہمسایوں کے معاملے میں خوش نصیب ہوتے لیکن ایسا نہیں ہے، ایک طرف ازلی دشمن ہے تو دوسری طرف ایک ایسا ملک جس میں امن کا قیام خواب معلوم ہوتا ہے۔

۔ سچ یہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ افغانستان کا ساتھ دیا ہے۔
ہمیشہ افغانوں کے ساتھ کھڑے ہوئے، کتنے ہی افراد چمن باڈر کراس کے ہر روز پاکستان آتے ہیں۔
یہاں اپنا علاج کراتے ہیں۔
ضرورت کی اشیا خریدتے ہیں۔
کتنے ہی افغان باشندے یہاں سکونت اختیار کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ جنگ کے ماحول سے نکل کر پُرسکون زندگی گزار سکیں۔
پاکستان نے ہمیشہ ان کے درد کو سمیٹا، انہیں چھت اور روزگار دیے۔ آج بیشمار افغان باشندے اپنے پیروں پر کھڑے ہیں اور پاکستان میں عزت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔

۔ مگر افغان قیادت ہے کہ وہ پاکستان پر الزام تراشی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ۔

۔ پاکستان اب بھی اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور افغانستان میں امن کا خواہش مند ہے۔ تاہم افغان حکومت کے تیور کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔ بھارت کے ایما پر وہ شاید ہم سے اچھے سفارتی تعلقات کے خواہاں نہیں ہے۔ افغان سرکاری میڈیا پر پاکستان کے خلاف نغمے نشر ہو رہے ہیں،یہ نغمے
RTA
(ریڈیو ٹی وی افغانستان)
کے ویریفائیڈ ٹویٹر اکائونٹ سے ٹویٹ بھی کیے گئے جس سے پاکستانیوں کے جذبات مجروح ہوئے۔ پھر بھی پاکستان نے افغان لیڈرزکی عالمی کانفرنس کے انعقاد کا اعلان اور میزبانی کی پیشکش کی لیکن افغان صدر اشرف غنی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ ملتوی ہو گئی۔ افغان نائب صدر امراللہ صالح بھی ٹویٹر پر پاکستان کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں کہ پاکستان ایئر فورس نے افغان آرمی اور افغان ایئرفورس کو سپن بولدک میں طالبان کو نکالنے کے لیے فضائی آپریشن کرنے پر سخت نتائج اور ردعمل کی دھمکی دی۔ یہ سراسر جھوٹی خبر ہے، افغان نائب صدر نے ثبوت دینے کا دعویٰ تو کیا مگر اب تک کوئی ثبوت نہیں دیا۔ پاکستان ایئرفورس نے ایسا کوئی بیان دیا اور نہ ہی پاک ایئرفورس کا افغان فورسز کے ساتھ کوئی رابطہ ہوا۔

۔ آج بھی افغانستان میں ایک خونی دن گزارا ہے ۔ صدراتی محل میں راکٹ حملے کئے گئے ۔ حملے کے وقت صدارتی محل میں عید الاضحیٰ کی نماز ادا کی جارہی تھی۔ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا مجھے تو یہ بھی ایک ڈرامہ لگتا ہے کہ طالبان کو کسی طرح بدنام کیا جائے گا یہ تاثر دیا جائے کہ عید پر بھی یہ خون خرابہ کر رہے ہیں ۔ اس حملے کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے عید کی نماز کے بعد صدارتی محل میں خطاب کیا اور پاکستان کے خلاف خوب زہر اگلا ۔

۔ جبکہ امریکا سمیت 16 ممالک اور نیٹو نے طالبان سمیت افغان حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ اس عید پر امن کیلئے اپنی سنجیدگی ثابت کرنے کیلئے جنگ بندی کریں۔

۔ادھر طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے حکومتی فورسز سے شدید جھڑپوں کے بعد کابل کے جنوب مغرب میں واقع صوبہ ارزگان کے ضلع دہراؤد پر قبضہ کر لیا ہے اور صوبائی انتظامیہ نے طالبان کی پیش قدمی کی تصدیق کی ہے ۔ شمالی صوبے سمنگان میں افغان فورسز نے میں ضلع درہ سوف کا قبضہ چھڑوالیا ہے ۔

۔ قندھار کی صوبائی کونسل کے رکن فدا محمد نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے سپن بولدک میں میرے دو بیٹوں کو ہلاک کردیا۔۔ تخار کے دارالحکومت طلوقان میں لڑائی کے دوران پولیس چیف شدیدزخمی ہوگیا۔ ادھر قندھار میں عمائدین کی کوششوں سے 8 روزہ جنگ بندی ہوگئی۔

۔ دوسری جانب اشرف غنی نے کل ہرات کا دورہ کیا،صو بے کے تمام اضلاع پر طالبان قابض ہیں جبکہ ہرات شہر طالبان کے محاصرے میں ہے ۔ دورے کے دوران اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اشرف غنی نے کہاکہ طالبان جنگ ہارچکے ہیں،وہ اہم عوامی عمارات کو تباہ کررہے ہیں۔

۔ جو دیکھائی دے رہا ہے کہ طالبان اورلسانی و قومیتی گروہوں اور مقامی جنگجو گروپوں کے درمیان جنگیں شروع ہوگئیں تو یہ پورے خطے کے امن پر اثرانداز ہوں گی۔ پاکستان مزید مہاجرین کی آمد کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے دونوں اطراف کے ہمسایے ہمارے خیرخواہ نہیں ہیں۔

۔ مگر پھر بھی پاکستان امن کا داعی ہے اس لیے پاکستان نے دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کے اختتام پر جاری مشترکہ اعلامیہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں افغان دھڑوں کے مابین حالیہ مذاکرات خوش آئند ہیں ۔

Comments are closed.