اگر ہم یہ کام کر لیں تو اسے بڑی خوش قسمتی کوئی نہیں ہو گی،اسد عمر کیا کرنا چاہتے ہیں؟

0
31

اگر ہم یہ کام کر لیں تو اسے بڑی خوش قسمتی کوئی نہیں ہو گی،اسد عمر کیا کرنا چاہتے ہیں؟

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ بچوں کے تحفظ کے لیے حکومتی اقدامات جاری ہیں، شیریں مزاری سے درخواست کی ہے زینب بل کو حکومت کا بل بنایا جائے،اس سےبڑھ کر اور کوئی خوش قسمتی نہیں ہو گی کہ بچوں کے لیے یہ بل پاس ہو وزیر اعلیٰ پنجاب سے درخواست کی ہے پنجاب میں بھی یہ بل پاس کروایا جائے،

اسد عمر نے مزید کہا کہ عدلیہ،پولیس اور پوراملک متفق ہو جائے تو ایسے واقعات پر کنٹرول پایا جا سکتا ہے،بچوں سے زیادتی کے واقعات کو کنٹرول کرنے کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں

زینب الرٹ بل قصور کی ننھی بچی زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل کے بعد وقافی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے پیش کیا تھا۔ بل کا مقصد 18 سال سے کم عمر لاپتہ اور اغوا شدہ بچوں کے تحفظ کے لیے قوانین واضع کرنا ہے۔ بل کے مطابق اسلام آباد میں ’چلڈرن پروٹیکشن ایکٹ 2018‘ کے تحت ادارہ قائم کیا جائے گا جبکہ لاپتہ بچوں کی فوری بازیابی کیلئے ’زارا‘ یعنی زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی کا قیام بھی بل کا حصہ ہے۔

زیب الرٹ بل کے تحت بچوں سے متعلق معلومات کے لیے پی ٹی اے، سوشل میڈیا اور دیگر اداروں کے تعاون سے ہیلپ لائن اور ایس ایم ایس سروس بھی شروع کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ڈائریکٹر جنرل قومی کمیشن برائے حقوق طفل متعلقہ ڈویژن کی مشاورت سے سپرنٹنڈنٹ پولیس کی سربراہی میں خصوصی ٹیمیں بھی تشکیل دے گا۔

اس بل کے تحت گمشدہ بچوں کے حوالے سے ڈیٹا فراہم کرنے میں تاخیر پر سرکاری افسروں کو ایک سال تک قید کی سزا بھی ہو سکے گی۔

زینب بل کے تحت زاراکے نام سے اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ بل کے متن میں لکھا گیا ہے کہ بچوں سے متعلق جرائم کا فیصلہ تین ماہ کے اندرہوگا۔ بچوں کے خلاف جرائم پر کم سے کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال قید سزا دی جاسکے گی اور دس لاکھ روپے جرمانہ ہوسکے گا۔گمشدہ بچوں سے متعلق ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا۔

1099فری ہیلپ لائن قائم کی جائے گی جس پر بچے کی گمشدگی، اغوا اور زیادتی کی اطلاع فوری طور پر ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، ہوائی و ریلوے اڈوں، مواصلاتی کمپنیوں کے ذریعے دی جائے گی۔ بل میں کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق جو سرکاری افسر دو گھنٹے کے اندر بچے کے خلاف جرائم پر ردعمل نہیں دے گا اسے بھی سزا دی جاسکے گی۔لاپتہ یا اغواشدہ بچے کی بازیابی کے لئے ضابطے کے تحت عمل نہ کرنے والا پولیس افسر دفعہ 182 کا مرتکب قرار دیا جائے گا

بل کے متن کے مطابق 18سال سے کم عمر بچوں کااغوا، قتل، زیادتی، ورغلانے، گمشدگی کی ہنگامی اطلاع کے لئے زینب الرٹ جوابی ردعمل و بازیابی ایجنسی قائم کی جائے گی۔ بچے کو منقولہ جائیداد ہتھیانے کے لئے اغوا پر چودہ سال قید دس لاکھ جرمانہ ہوسکے گا۔تاوان کے لئے اغوا کرنے والے کسی بھی شخص کو عمر قید اور دس سال جرمانہ ہوگا۔

 

احسن اقبال کو نیب نے کیوں گرفتار کیا؟ ایسی وجہ سامنے آئی کہ ن لیگ حیران رہ گئی

احسن اقبال کی گرفتاری، مریم اورنگزیب چیئرمین نیب پر برس پڑیں کہا جو "کرنا” ہے کر لو

نیب نے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کو گرفتار کر لیا، اس حوالہ سے نیب نے اعلامیہ جاری کر دیا ہے،

نواز شریف کے قریبی دوست میاں منشا کی کمپنی کو نوازنے پر نیب کی تحقیقات کا آغاز

نواز شریف سے جیل میں نیب نے کتنے گھنٹے تحقیقات کی؟

تحریک انصاف کا یوٹرن، نواز شریف کے قریبی ساتھی جو نیب ریڈار پر ہے بڑا عہدہ دے دیا

 قومی اسمبلی میں زینب الرٹ متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا . امید ہے سینیٹ میں بھی اس قانون کو جلد منظور کرلیا جائے گا معصوم بچوں کی حفاظت حکومت کی اوّلین زمہ داری ہونی چاہیے امید ہے اس قانون اور نظام سے آئندہ ہمارے معصوم بچوں کی حفاظت میں مدد ملے گی.

Leave a reply