ہمیں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا کیا اور اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہم حضرت محمد ﷺ کے امتی ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے ہم امتی ہونے کا حق ادا کرنا بھول گئے، ہم اپنی زندگیوں کو آپ کے بتائے ہوئے احکامات پر چلانے کی بجائے ایسے کاموں میں ملوث ہو گئے جس کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔
افسوس کہ آج مسلمان مذہب سے دوری کے ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت کو بھی بھول گئے ہیں۔ بے راہ روی کا شکار ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں اخلاقی زوال، بے حیائی، جھوٹ، چغل خوری، مکر و فریب، غرور و تکبر سرایت کرگئے ہیں۔
اگر ایک نگاہ مسلمانوں کے موجودہ احوال پر ڈالی جائے، برما ہو یا شام، فلسطین ہو یا افغانستان، افریقہ یا امریکہ، عراق ہو یا یمن، ہر ملک اور دنیا کے ہر خطہ میں مسلم قوم تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ تمام اقوام عالم نے یک زبان ہو کر دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑدیا ہے، مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی مسلمانوں کے حوالے سے ارشاد فرماتا ہے: ” تم بہترین امت ہو "یعنی دنیا کی سب سے اچھی امت ہو ؛حالانکہ سب سے اچھی امت اسے کہتے جسے دنیا میں عز ت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے، دوسری اقوام جسے اپنے لیے نمونہ بنائیں، اس کی تہذیب کو اپنایا جائے نیز وہ ایسی امت ہو کہ خوش حالی کی زندگی گزارے، تمام طرح کی دنیاوی پریشانیوں سے مامون ومحفوظ ہو۔ ان میں سے کوئی چیز بظاہر امت مسلمہ میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔
وہ کون سے اسباب ہیں جس کی وجہ سے آج مسلمانوں کی یہ حالت ہے، ہمیں جلد ہی ان عوامل کو تلاش کرنا ہو گا کہیں دیر نا ہو جائے۔ ان دنیاوی چیزوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے کہیں کسی دن موت کا بلاوا نہ آ جائے۔ بحیثیت مسلمان اور نبی کریم ﷺ کے امتی ہمیں ہر وقت اپنی آخرت کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیئے اور آخرت کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھنا چاہیے۔
مسلمانوں کی موجودہ پریشان حالی کے اسباب یہ ہیں کہ وہ لاشعوری اور غفلت کی زندگی گزار رہے ہیں، جب کہ انھیں اس ذمہ داری کے ساتھ دنیا میں بھیجا گیا ہے کہ وہ اس دنیا میں بسنے والے تمام افراد کے نفع و نقصان کی فکرکریں، مگر وہ اپنی ذاتی زندگی میں اس قدر مصروف ہوگئے ہیں کہ اپنی اس عظیم ذمہ داری کو بھول بیٹھے ہیں۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ مسلمان تعلیمی اور فنی میدان میں بہت پیچھے رہ گئے اور تعلیم کے بغیر کسی قوم کی کسی بھی میدان میں صحیح راہنمائی کرنا محض خواب وخیال ہے۔
تیسرا سبب یہ ہے کہ دین سے ان کا رشتہ بہت کمزرو پڑچکا ہے، چنانچہ دینی تعلیمات ، اسلامی طرز زندگی اور اسلامی اخلاق ان کی زندگی سے ختم ہورہے ہیں۔
چوتھا سبب یہ ہے کہ امت اللہ کی طرف رجوع کرنا بھول گئی ہے، جس کا بہترین راستہ نماز ہے،
نماز ہر طرح کی پریشانیوں، تکلیفوں، غموں، مصیبتوں، الجھنوں، بیماریوں اور حزن و ملال کے بادل چھانٹ دیتی ہے۔ جب کبھی حضور ﷺ کو کوئی اہم مسئلہ پیش ہوتا تو آپ اپنے رب کی بارگاہ میں نماز کی حالت میں رجوع کرتے، نماز کی ادا سے اپنے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے اور نماز سے ہی اپنے تمام معاملات کو بہتر کرتے۔ کائنات میں صرف ایک ذات اللہ عزوجل کی ہے جو دل کو جمانے اور ڈھارس بندھانے والی ہے۔
ہم لوگ آج ہر طرف سے نفسیاتی،جسمانی،دماغی، معاشرتی، پریشانیوں، الجھنوں میں پھنسے ہوتے ہیں لیکن اللہ کی طرف رجوع کرنے اور نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ سے صبر و سکون حاصل کرنے کے بجائے ہم مادی وسائل کا انتخاب کرتے ہیں، جب کہ سکون، اطمینان حاصل کرنے اور ان تمام بیماریوں کے علاج کا ایک ہی ذریعہ، ایک ہی مداوا اور حل ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے خالق و مالک کے سامنے نماز کی حالت میں جھک جائے۔
لہٰذا مسلمانوں کو ان چاروں اسباب میں غور کرنا چاہیے اور ان چاروں کی طرف سنجیدہ اقدامات کرنے چاہیے،ان انشاءاللہ کامیابی و کامرانی ان کا مقدر ہوگی اور زمین کی سربراہی اور دیگر اقوام کی قیادت و سیادت انھیں حاصل ہوگی، وہ ایک قائد امت بن کر دوبارہ ابھر سکیں گے اور پوری دنیا انھیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے گی، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
آیت 139: وَلاَ تَہِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا: ”اور نہ کمزور پڑو اور نہ غم کھاؤ’
وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ: ”اور تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مؤمن ہوئے۔”
Author: Faraz Rauf
Twitter ID: @farazrajpootpti