پاکستان تحریک انصاف کے بانی رہنما اکبر ایس بابر نے پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن چیلنج کر دیئے

پی ٹی آئی الیکشن محض دکھاوا، فریب اور الیکشن کمیشن کو دھوکہ دینے کی ناکام کوشش تھی ،پاکستان تحریک انصاف کے بانی رہنما اکبر ایس بابر نے پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن چیلنج کر دیئے۔ بانی رہنما پی ٹی آئی نے انتخابات کیخلاف الیکشن کمیشن میں باقاعدہ درخواست دائر کر دی۔ چیف الیکشن کمشنر کے نام تین صفحات پر مشتمل درخواست میں الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 208 کا حوالہ دیا گیا ہے۔درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ، فراڈ انتخابی عمل نے پی ٹی آئی ارکان کو ووٹ دینے اور انتخاب میں حصہ لینے کے حق سے محروم کر دیا، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات الیکشن ایکٹ 217 کے سیکشن 208 اور ذیلی شق 2 کی خلاف ورزی ہے۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو جمہوری نہیں بنائیں گے تو قابل لیڈرشپ سامنے نہیں آئے گی۔الیکشن کمیشن اسلام آباد کے باہر میڈیا سے گفتگو میں اکبر ایس بابر نے کہا کہ آج ہم سب نے الگ الگ درخواستیں جمع کرائی ہیں، ہم بلے کا نشان بچانے نکلے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں نے اسی الیکشن کمیشن میں بلے کےلیے درخواست دی تھی، آج انتخابی نشان بلا خطرے میں ہے۔ا ن کا کہنا تھا کہ یوسف علی اور نورین فاروق نے بھی درخواست جمع کرائی ہے، عدالت کا فیصلہ درخواست کے ساتھ منسلک ہے، جس میں میری پارٹی ممبرشپ بحال کی گئی۔اکبر ایس بابر نے یہ بھی کہا کہ میں واحد پارٹی ممبر ہوں، جس کے حق میں تین جوڈیشل فورمز سے تحریری فیصلے آئے۔پی ٹی آئی کے بانی رکن نے مزید کہا کہ پارٹی کے کچھ ممبران بھی میرے ساتھ ہیں، یوسف علی پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری تھے، نورین فاروق خان لیبر ونگ کی صدر تھیں۔
ی ٹی آئی کے بانی رکن نے کہا کہ درخواست میں لکھا ہے کہ تمام پارٹیوں کو انٹراپارٹی الیکشن کے عمل سے گزاریں، الیکشن کمیشن دیگر جماعتوں کی فنڈنگ اسکروٹنی کرے، جیسے پی ٹی آئی کی ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو جمہوری نہیں بنائیں گے تو قابل لیڈرشپ سامنے نہیں آئے گی، پی ٹی آئی میں ایسے شخص کو چیئرمین بنایا گیا جس کا پارٹی سے تعلق ہی نہیں، پارٹی کارکن کو حق کیوں نہیں دیتے کہ وہ قیادت کا انتخاب کرےانہوں نے کہا کہ درخواست کے ساتھ تمام ثبوت رکھے ہیں، جعلی الیکشن کالعدم قرار دینے کی استدعا کی، الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو فوری شفاف الیکشن کرانے کا حکم دے۔

Comments are closed.