اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید نازل فرمایا اوراللہ ہی اس کی حفاظت فرما رہے ہیں ، علامہ عبدالشکورحقانی ،علامہ سید حسنین موسوی کی علمی گفتگو

0
58

لاہور :اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید نازل فرمایا اوراللہ ہی اس کی حفاظت فرما ر ہے ہیں ، علامہ عبدالشکورحقانی ،علامہ سید حسنین موسوی کی علمی گفتگو ،باغی ٹی وی کے مطابق گفتگو کرتے ہوئے علامہ حقانی نے کچھ اس طرح تفسیر بیان کی ،

 

علامہ عبدالشکورحقانی نے کیہا کہ چودھویں پارے کا آغاز سورۃ الحجر سے ہوتا ہے۔ اللہ نے اس امر کا ذکر کیا ہے کہ کافر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو تنقید کا نشانہ بناتے اور کہتے ہیں کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہمارے لیے فرشتوں کو کیوں لے کر نہیں آتے، تو اللہ نے ان کے اعتراض کا جواب دیا کہ فرشتوں کو تو ہم عذاب دینے کے لیے اتارتے ہیں اور جب فرشتوں کا نزول ہو جاتا ہے تو اقوام کو مہلت نہیں دی جاتی. قرآنِ مجید کے نزول پر شک اور اعتراض کرنے والے کافروں سے مخاطب ہو کر اللہ نے کہا کہ بے شک ہم نے ہی ذکر (قرآنِ مجید) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

اس سورت میں اللہ نے فرمایا ہے کہ ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور ان کو شیطان کے شر سے محفوظ کیا مگر جو آسمان کی بات کو چرا کر زمین پر لانا چاہے تو اس کو اللہ شہابِ ثاقب سے نشانہ بناتا ہے۔ پھر انسان کی تخلیق کا ذکر ہے کہ ہم نے اسی (مٹی) سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور اسی میں ہم تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے ہم تمھیں دوسری مرتبہ نکالیں گے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جب یہ کہا گیا کہ آدم مٹی سے پیدا کیا گیا ہے تو اس کا مطلب ان نظریات کی تردید کرنا تھا کہ کوئی انسان دیوتاؤں کی اولاد نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس استعارے کو نہیں سمجھا اور اپنی سمجھ کے مطابق مٹی کا پتلہ بنانے بیٹھ گئے۔

آگے قومِ لوط کی طرف روانہ کیے جانے والے فرشتوں کا بھی ذکر کیا ہے. یہ فرشتے جنابِ لوط کی طرف جانے سے قبل جناب ابراہیم کے پاس آئے۔ انھوں نے جنابِ ابراہیم کو ایک عالم فاضل بیٹے کی بشارت دی اور انھیں بتایا کہ ہم ایک مجرم قوم کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ اس قوم میں سے لوط کے گھرانے کے علاوہ ہر شخص کو ہلاک کر دیا جائے گا سوائے لوط کی بیوی کے کہ جس کے بارے میں ہمارا فیصلہ ہے کہ وہ ضرور مجرموں کے ساتھ پیچھے رہ جائے گی۔ اللہ کے فرشتوں نے لوط کی پوری بستی کو بلندی پر لے جا کر الٹ دیا اور ان پر پتھروں کی بارش کر دی۔

اس سورۃ میں اللہ نے اس امر کا بھی اعلان فرمایا کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتا ہے، اس سے نبٹنے کے لیے خود اللہ کی ذات کافی ہے۔ اللہ نے اپنے رسول کے ہر دشمن کو ذلت اور عبرت کا نشان بنا دیا۔ اس سورت میں یہ ارشاد بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سات بار پڑھی جانے والی آیات اور قرآنِ عظیم یعنی سورہ فاتحہ عطا کی گئی ہے۔

سورۃ الحجر کے بعد سورۃ النحل ہے۔ اس میں ارشاد ہے کہ اللہ اپنے جس بندے پر چاہتے ہیں روح الامین کو فرشتوں کے ہمراہ نازل فرماتے ہیں تاکہ وہ لوگوں کو ڈرائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں. یہ بھی بیان کیا گیا کہ انسانوں کے لیے انواع و اقسام کی سواریوں کو پیدا فرمایا گیا ہے۔ اللہ نے گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کو پیدا کیا اور وہ کچھ پیدا فرمایا جس کو انسان نہیں جانتا۔

اللہ نے دو خداؤں کے تصور کی نفی کی اور کہا انسانوں کو دو خدا نہیں پکڑنے چاہییں، بے شک وہ اکیلا اللہ ہے۔ ثنویت کا عقیدہ آتش پرستوں میں موجود تھا اور وہ دو خداؤں کی بات کیا کرتے تھے۔ اللہ نے ان کے عقیدے کو رد کیا. اللہ نے انسانوں کی توجہ مویشیوں کی طرف بھی مبذول کرائی اور کہا کہ چوپایوں میں انسانوں کے لیے عبرت ہے کہ اللہ تعالی ہمیں ان کے پیٹوں سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو کہ خون اور گوبر کے درمیان سے نکلتا ہے لیکن اس میں نہ خون کی رنگت ہوتی ہے اور نہ فضلے کی گندگی۔ ارشاد ہے کہ پرندے کو فضائے بسیط میں اللہ ہی سہارا دیتا ہے۔ ارشاد ہے کہ اللہ نے گھروں کو ہمارے لیے جائے سکونت بنایا ہے، جو سکون انسان کو گھر میں حاصل ہوتا ہے وہ کسی دوسرے مقام پر حاصل نہیں ہوتا۔

ارشاد ہے کہ اللہ نے رسول پر قرآن مجید کو اس لیے نازل کیا کہ وہ لوگوں کو بیان کریں جو ان پر نازل کیا گیا ہے۔ گویا رسول کے فرامین اور آپ کی سنتیں قرآن مجید کے بیان کی حیثیت رکھتی ہیں۔

اللہ نے کافروں کی ہرزہ سرائی کا ذکر کیا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ رسول پر قرآن نازل نہیں ہوا بلکہ حضرت محمد علیہ السلام روم کے ایک نومسلم (مراد صہیب رومی) سے سن کر اس کو آگے لوگوں کو سناتے ہیں۔ آپ کی طرف سے اللہ نے خود جواب دیا کہ جس آدمی کے بارے میں ان کا یہ گمان ہے کہ وہ رسول اللہ کو سکھلاتا ہے وہ تو عجمی ہے جب کہ رسول اللہ پر نازل ہونے والے قرآن کی زبان تو عربی مبین (صاف صاف) ہے۔ نیز قرآن مجید کو روح القدس نے رسول اللہ کے قلب پر نازل کیا تاکہ مومنوں کو ثابت قدم رکھا جائے، اور اس میں مسلمانوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہے۔

اللہ نے سبا کی بستی کا بھی ذکر کیا ہے کہ جس کو اللہ نے رزق اور امن کی جملہ نعمتوں سے نوازا تھا لیکن وہ لوگ اللہ کی ناشکری اور نافرمانی کے کاموں میں مشغول ہوگئے تو اللہ نے ان سے امن کو چھین کر خوف میں اور رزق کو چھین کر بھوک میں مبتلا کر دیا تھا۔ اس واقعے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ قوموں کے امن اور معیشت کا تعلق اللہ کی فرمانبرداری کے ساتھ ہے اور جب کوئی قوم اللہ کی نافرمانی اور ناشکری کا ارتکاب کرتی ہے تو اللہ اسے بدامنی اور بھوک اور خوف میں مبتلا کر دیتا ہے۔

اللہ نے جنابِ ابراہیم کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بے شک وہ اپنی ذات میں ایک امت تھے۔ وہ اللہ کے انتہائی فرمان بردار اور یکسو (حنیف) مسلمان تھے. انھوں نے کبھی شرک نہیں کیا۔ وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ اللہ نے ان کو قبول کر لیا تھا اور ان کو سیدھے راستے پر چلا دیا تھا۔

اس سورت کے آخر میں دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اللہ کے راستے کی طرف بلانے والے لوگوں کو چاہیے کہ وہ دانشمندی سے اور اچھے انداز سے وعظ و نصیحت کریں اور پسندیدہ طریقہ سے بحث کریں۔ بے شک اللہ کو خوب معلوم ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹکا ہوا اور کون ہدایت پر ہے۔ اعدائے دین کی تکلیفوں پر صبر کرنے کو اچھا عمل قرار دیا گیا ہے اور یہ کہ صبر اللہ کی ذات پر یقین رکھ کر ہی ہو سکتا ہے۔ بے شک اللہ تقوی اختیار کرنے والوں اور نیکوکاروں کےساتھ ہے۔ تائیدِ خداوندی حاصل کرنے کے لیے خدا کا ڈر اور نیکی کے راستے پر استقامت درکار ہے، جس انسان کو یہ دو چیزیں حاصل ہو جائیں گی اسے تائیدِ خداوندی حاصل ہو جائے گی۔

 

 

علامہ سید حسنین موسوی نے چوہدویں پارے کا خلاصہ کلام بتاتے ہوئے کہا کہ

(۱) سورۂ حجر میں چار باتیں یہ ہیں:​
۱۔ کفار کی آرزو (آخرت میں جب کفار مسلمانوں کو مزے میں اور خود کو عذاب میں دیکھیں گے تو تمنا کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوجاتے)
۲۔ قرآن کی حفاظت (اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے)
۳۔ انسان کی تخلیق (اللہ تعالیٰ نے انسان کو منی سے بنایا، فرشتوں کا مسجود بنایا، شیطان مردود ہوا، اس نے قیامت تک انسانوں کو گمراہ کرنے کی قسم کھالی)
۴۔ تین قصے
پہلا قصہ:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرشتوں نے آکر بیٹے کی خوشخبری دی، اس وقت ان کی اہلیہ بہت بوڑھی تھیں، بظاہر یہ ولادت کی عمر نہ تھی، اس لیے آپ کو بیٹے کی خوش خبری سن کر خوشی بھی ہوئی اور تعجب بھی ہوا، فرشتوں نے کہا ہم آپ کو سچی خوشخبری سنا رہے ہیں آپ مایوس نہ ہوں، آپ نے فرمایا کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا تو صرف گمراہوں کا کام ہے۔
دوسرا قصہ:
فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خوشخبری سنا کر حضرت لوط علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے درخواست کی کہ آپ اپنے گھر والوں کو ساتھ لے کر رات ہی کو اس بستی سے نکل جائیے، کیونکہ آپ کی بستی والے گناہوں کی سرکشی میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ناپاک وجود سے زمین کو پاک کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، ان لوگوں کی جڑ صبح صبح ہوتے ہوتے کاٹ دی جائے گی۔
تیسرا قصہ:
اصحاب الحجر ، ان سے مراد قوم ثمود ہے، یہ لوگ بھی ظلم اور زیادتی کی راہ پر چل نکلے تھے اور بار بار سمجھانے کے باوجود بت پرستی کو چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہورہے تھے، انھیں مختلف معجزات دکھائے گئے بالخصوص پہاڑی چٹان سے اونٹنی کی ولادت کا معجزہ جو کہ حقیقت میں کئی معجزوں کا مجموعہ تھا، اونٹنی کا چٹان سے برآمد ہونا، نکلتے ہی اس کی ولادت کا قریب ہونا، اس کی جسامت کا غیر معمولی بڑا ہونا، اس سے بہت زیادہ دودھ کا حاصل ہونا، لیکن ان بدبختوں نے اس معجزے کی کوئی قدر نہ کی، بجائے اس کے کہ وہ اسے دیکھ کر ایمان قبول کرلیتے انھوں نے اس اونٹنی کو ہلاک کردیا، چنانچہ وادی حجر والے بھی عذاب کی لپیٹ میں آکر رہے۔

(۲) سورۂ نحل میں پانچ باتیں یہ ہیں:​
۱۔ توحید
۲۔ رسالت
۳۔ شہد کی مکھی
۴۔ جامع آیت
۵۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام کی تعریف

۱۔ توحید:
اللہ تعالیٰ نے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا، انسان کو نطفے سے پیدا کیا، چوپائے پیدا کیے، جن میں مختلف منافع بھی ہیں اور وہ اپنے مالک کے لیے فخر و جمال کا باعث بھی ہوتے ہیں، گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا کیے جو باربرداری کے کام آتے ہیں اور ان میں رونق اور زینت بھی ہوتی ہے۔ بارش وہی برساتا ہے، پھر اس بارش سے زیتون، کھجور، انگور اور دوسرے بہت سارے میوہ جات اور غلے وہی پیدا کرتا ہے۔ رات اور دن، سورج اور چاند کو اسی نے انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ دریاؤں سے تازہ گوشت اور زیور وہی مہیا کرتا ہے۔ سمندر میں جہاز اور کشتیاں اسی کے حکم سے رواں دواں ہیں۔ اگر اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہیں تو شمار نہیں کرسکتے۔
۲۔ رسالت:
نبی علیہ السلام کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ اللہ کی طرف بلائیں اور اس کی راہ میں پیش آنے والے مصائب پر صبر کریں۔ نیز آپ کو صبر کرنے اور تنگدل نہ ہونے کی تلقین کی گئی ہے۔
۳۔ شہد کی مکھی:
شہد کی مکھی کا نظام بہت عجیب ہوتا ہے، یہ اللہ کے حکم سے پہاڑوں اور درختوں میں اپنا چھتہ بناتی ہے، یہ مختلف قسم کے پھلوں کا رس چوستی ہے، پھر ان سے اللہ تعالیٰ شہد نکالتے ہیں، جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور اس شہد میں اللہ نے انسانوں کی بیماریوں کے لیے شفا رکھی ہے۔
۴۔ جامع آیت:
اس سورت کی آیت نمبر ۹۰ میں تین باتوں کا حکم دیا گیا ہے اور تین باتوں سے منع کیا گیا ہے: عبادات اور معاملات میں عدل ، ہر ایک کے ساتھ اچھا سلوک اور قرابت داروں کے ساتھ تعاون کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور واضح برائی ، منع کردہ کاموں اور ظلم کرنے سے روکا گیا ہے۔
۵۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام کی تعریف:
حضرت ابراہیم علیہ السلام زندگی بھر توحیدِ خالص پر جمےرہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی ملت کے اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔

Leave a reply