جب وبا سے بچاؤ کیلئے بڑی دعائیہ تقریب نے ہلاکتوں میں کئی گنا اضافہ کیا، ابن حجر کی کتاب سے اقتباس

0
41

لاہور :جنہوں نے احتیاط نہ کی توپھرکتنا نقصان ہوا، حافظ ابن حجراپنی کتاب کے صفحہ 850 پرفرماتے ہیں ، علما کرام ضرورپڑھیں‌،رپورٹ کے مطابق باغی ٹی وی معرف محد ث ، مفسرقرآن علامہ ابن حجرکی کتاب سے ایسے انمول موتی اپنے قارئین تک پیش کررہا ہے جو کرونا وائرس کے حوالے سے ابھی تک کنفیوزن کا شکارہیں ،

علمائے تاریخ کے مطبق حافظ ابن حجر اپنی 850 صفحات پر مبنی کتاب، بدل الماعون فی فضل الطاعون میں لکھتے ہیں کے 749 ھجری میں دمشق میں طاعون پھیل گیا تھا اور شھر کے زعماء نے فیصلہ کیا کے باہر نکل کر خصوص نماز اور دعا کا اہتمام کیا جائے جس کے بعد طاعون اور زیادہ پھیل گیا. اموات میں اضافہ ہوگیا جبکہ پہلے اموات کی شرح کم تھی. ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں 833 ھ میں قاہرہ میں طاعون پھیلا جس میں روزانہ 40 لوگ موت کا شکار ہو رہے تھے، لوگوں نے صحرا میں جاکر نماز اور دعا کا اہتمام کیا، اس نماز کے اہتمام کے چند ہفتے بعد روزانہ 1000 لوگ مرنا شروع ہوگئے.

یہ وہ دور تھا جب وائرس، ویکسین، میڈیسن، معلومات کے زرائع محدود تھے، اس لیئے اجتماعی نماز اور دعا کرنے والوں کی نیت پر کوئی شک نہیں لیکن آج کے دور میں جب وبا کے پھیلنے اور احتیاط کے ساری تفصیل سامنے ہے، اس طرح لوگوں کی جانوں کو اجتماعی عبادت کے نام پر جمع کرنا مجرمانہ عمل ہے.

یہ تو علامہ ابن حجرنے اس دور میں احتیاط نہ کرنے کی صورت میں‌ہونےوالے نقصانات کا ایک سرسری سا خاکہ دیا ہے ، ہم اس وقت دنیا جس وبا اوربیماری کا سامنا کررہی ہے اس کے مقابلے میں تو طاقت ور سے طاقت ور ملک بھی نہ ٹھہرسکا پاکستان تو ان ممالک کے مقابلے میں بہت کمزور ہے

پاکستان میں کرونا وائرس پھیلنے کے ابتدائی دنوں میں اس قدرتیزی نہیں تھی جوآج ہے ، آج اگریہ تیزی اورکیسزروزانہ ہزاروں کی تعداد مین بڑھنے لگے ہیں تو یہ لاک ڈاون میں نرمی اورشہریوں کی غیرذمہ داری کا نتیجہ ہے،

اس سارے معاملے میں مذہبی طبقہ بہت زیادہ جزباتی ہے ،وہ جو احتیاط کرنی چاہیے تھی اس کا قائل نہیں ہے ، اوراگرمزید احتیاط نہ کی تو بہت بڑی تباہی کا اندیشہ ہے ، ان حالات میں علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ تاریخ اسلامی کا مطالعہ کرکے اس دور کے علماء کے فیصلوں کو سامنے رکھیں اورخود بھی بچیں اورامت کو بھی بچائیں ،

Leave a reply