بیجنگ:دو عالمی حریف پھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے،چین نے امریکہ کو تائیوان کو ہتھیار فروخت کرنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ چین یہ کبھی برداشت نہیں کرے گا کہ تائیوان کو چین کے مقابلے میں ہتھیار دیئے جائیں.چین نے امریکا سے تائیوان کو 2 ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کی فروخت فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس سے دونوں طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے کہا کہ چین نے سفارتی چینلز کے ذریعے باقاعدہ شکایات درج کی ہیں جن میں کو پیغام بھیجا گیا ہے کہ وہ ایسی تمام کوششوں سے باز رہے جس سے چین اور امریکہ کے تلعقات میں بگاڑآئے۔تائیوان میں امریکا کی جانب سے وسیع پیمانے پر پہلی مرتبہ ہتھیار فروخت کیے جائیں گے اور یہ ایک ایسے وقت میں کیا جارہا ہے جب واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تجارتی جنگ کے باعث تعلقات کشیدہ ہیں۔
دفاعی ذرائع کے مطابق معاہدے میں 108 ایم ون اے ٹو ٹی ابرامس ٹینکس، 250 اسٹینگر اینٹی ایئر کرافٹ میزائل، متعلقہ آلات اور معاونت شامل ہیں جن کی لاگت اندازاً 2 ارب 20 کروڑ ڈالر سے زائد ہے۔ڈی ایس سی اے نےبتایا کہ تجویز کردہ فروخت سے تائیوان کے جنگی ٹینکوں کی تعداد میں اضافہ اور فضائی دفاعی نظام مضبوط ہوگا، تائیوان کی سیکیورٹی اور دفاعی قابلیت کی بہتری میں مدد سے امریکا کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی حمایت ہوگی ‘۔
امریکی دفاعی ایجنسی نے مزید بتایا کہ اس معاہدے سے خطے میں ہتھیاروں کا بنیادی توازن تبدیل نہیں ہوگا اور کانگریس کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے، امریکی قانون سازوں کے پاس اس فروخت پر اعتراض اٹھانےکے لیے 30 دن ہیں اور کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جائے گا۔دوسری طرف چین نے امریکی تاویلوں کو مسترد کرتے ہوئےہےکہا ہے کہ پیش کیا گیا معاہدہ ون چائنہ کے اصول کی سنگین خلاف ورزی اور ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔
یاد رہے کہ 1949 میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد تائیوان میں چین سے علیحدہ حکومت قائم ہوئی.لیکن چین تائیوان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا اور آج بھی اپنا حصہ سمجھتا ہے .چین کا کہنا ہے کہ اگر ضروری ہوا تو طاقت کے ذریعے واپس حاصل کیا جائے گا۔چین نے 2016 میں تائیوان کی صدر سائی انگ وین کے انتخابات کے بعد تائپے پر سفارتی اور فوجی دباؤ میں اضافہ کیا، صدر کا تعلق ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی سے ہے جو تائیوان کو ’ ایک چین ‘ کا حصہ ماننے سے انکار کرتی ہے۔