مسلم مخالف قانون ، بھارتی پولیس،فوج ،خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے مظالم کی انتہا کردی

0
37

نئی دہلی: اتوار اور پیر کی درمیانی شب لاٹھیوں، ڈنڈوں اور راڈز سے لیس درجنوں نقاب پوش نوجوان یونیورسٹی کے کیمپس میں داخل ہوئے اور انہوں نے طلبہ اور اساتذہ کو بری طری سے مارا پیٹا۔ اس تشدد میں طلبہ یونین کی صدر اویشی گھوش سمیت کم از کم 34 افراد شدید زخمی ہوئے ہیں، جن کا دلی کے کئي ہسپتالوں میں علاج جاری ہے۔اطلاعات کے مطابق نفاب پوش افراد ’بھارت ماتا کی جے، وندے ماترم اور گولی مارو جے این یو کے غداروں کو’ کے نعرے لگا رہے تھے۔

 

حملہ آوروں نے لڑکیوں کے ہوسٹل میں داخل ہو کر کئی طالبات کو بھی زدوکوب بھی کیا ہے۔ یونین کی صدر آئشی گھوش کو سر پر دو جگہ لوہے کی راڈ لگنے سے زخم آئے ہیں۔رات بارہ بجے تک کم از کم 22 طالبات کو طبی امداد کے لیے ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بہت سے طلبا کو شدید زخم آئے ہیں جبکہ یونیورسٹی کے کئی پروفیسرز کو بھی مارا پیٹا گیا ہے۔

 

نفاب پوش حملہ آور کیمپس کے اندر کئی گھنٹے تک طلبہ اور پروفیسروں کو زدوکوب کرتے رہے تاہم انھوں دعوی کیا کہ پولیس کیمپس کے گیٹ پر موجود رہی لیکن وہ طلبا کو بچانے کے لیے آگے نہیں آئی۔ ان حملوں کی کئی ویڈیوز سامنے آئی ہیں۔ان ویڈیوز میں طلبا نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ نقاب پوش حملہ آور آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے کارکن تھے جنھیں کمیپس میں موجود آر ایس ایس کی طلبا تنظیم اے بی وی پی کے کارکنوں کی مدد حاصل تھی۔ نے بلا رکھا تھا۔ دوسری جانب اے بی وی پی کا کہنا ہے کہ یہ حملہ بائیں بازو کے طلبا نے ان کے حامیوں پر کیا ہے۔

جے این یو کی سابق طالبعلم اور موجودہ حکومت کی وزیرِ خزانہ نرملا سیتا رمن نے ٹوئٹر پر پوسٹ کیے گئے ایک پیغام میں جے این یو کیمپس میں طلبا پر تشدد کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’جے این یو میں بحث مباحثے کی روایت رہی ہے۔ وہاں کبھی تشدد نہیں ہوا۔ یونورسٹی میں سبھی طلبا محفوظ ہونے چاہییں۔‘

جے این یو ہی کے سابق طالبعلم اور موجودہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ’جے این یو میں تشدد قابل مذمت ہے۔ جے این یو میں تشدد کی نہیں بحث کی روایت ہے۔‘اتوار کو رات گئے اپوزیشن کانگریس کی رہنما پریانکا گاندھی زخمی طالب علموں سے ملنے کے لیے ہسپتال گئیں۔ بنگال کی وزیر اعلی ممتا بینرجی نے جے این یو پر نقاب پوش حملہ آوروں کے حملے کی مذمت کی ہے اور طلبا کے ساتھ اتحاد کے اظہار کے لیے ایک وفد دلی بھیجا ہے۔

بنگال کی جادھوپور یونیورسٹی میں رات دیر گئے طلبا نے مشعل بردار جلوس نکالا ہے جبکہ ممبئی میں سیکڑوں شہری جے این یو کے طلبا کے ساتھ اتحاد کے اظہار کے لیے گیٹ وے آف انڈیا پر جمع ہوئے۔بہت سے طلبا تشدد سے بچنے کے لیے ہاسٹل کے کمروں میں بند ہو گئے اور انھوں نے کمروں کو اندر سے بند کر لیا۔ دہلی پولیس کی طرف سے ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔

یاد رہے کہ شہریت کے متنازع قانون کی منظوری کے بعد سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ جمعہ کو انڈیا کی ریاست حیدرآباد میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں نے مارچ کی اور اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔اس سے قبل، ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے مظاہروں میں کم از کم 27 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں مبینہ طور پر کئی افراد پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے۔

 

 

جے این یو کی طلبہ یونین کے صدرعائشی گھوش کو ان کے ہاتھ اور سر پر چوٹ لگی تھی ، جس کی وجہ سے وہ لہولہان ہو گئی تھی۔ حملے میں زخمی ہونے والے تمام طلبہ اور اساتذہ کو ایمس لے جایا گیا ،جبکہ ابھی تک درجنوں کی تعداد میں طالب علم ہستپالوں میں زیرعلاج ہیں‌

جے این یو کی طلبہ یونین کے صدرعائشی گھوش نےگفتگو میں کہا کہ اتوار کے روز کیمپس میں بیرونی افراد کے ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی اور ہم نے پولیس کو بھی اس بارے میں شکایت کی ہے پھر بھی کوئی ایکشن نہیں ہوا ان کی طرف سے آگے گھوش نے بتایا کہ ‘دوپہر سے ہی یہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ بیرونی لوگ کیمپس میں داخل ہوگئے ہیں۔

جس کے بعد ہم نے پولیس کو دوپہر ڈھائی بجے شکایت کی۔ ہم نے پولیس کو بتایا کہ ہم خود کو محفوظ محسوس نہیں کررہے ہیں۔ یہ لوگ باہر سے کیسے آئے؟ یہ سب وی سی ایم جگدیش کمار کی وجہ سے ہوا ہے۔ اسے استعفی دینا چاہئ

 

 

یہ بات بھی قابل غور ہےکہ چند دنوں سے شروع ہونے والے احتجاج میں بھارتی پولیس نے درجنوںمسلمانوں کوشہید کردیا ہے، اس کے علاوہ ہزاروںکی تعداد میں گرفتارکرلیا ہے

 

ایک سینیئر پولیس افسر نے کہا کہ ریاست میں مرنے والے 16 افراد میں سے 14 لوگوں کی موت گولی لگنے سے ہوئی ہے۔ باقی دو افراد میں ایک کی موت فیروزآباد میں سر پر چوٹ لگنے سے ہوئی اور وارانسی میں پولیس کے ایکشن کے نتیجے میں ہونے والی بھگدڑ کے نتیجے میں آٹھ سالہ بچے محمد صغیر کی موت واقع ہوئی ہے۔

گولی لگنے سے ہلاک ہونے والوں میں لکھنؤ سے محمد وکیل (32 سال)، کانپور سے آفتاب عالم (22) اور محمد سیف (25)، بجنور سے انس (21) اور سلیمان (35)، سنبھل سے بلال (24) اور محمد شہروز (23)، میرٹھ سے ظہیر (33)، آصف (20) اور عارف (20)، فیروز آباد سے نبی جہاں (24) اور رام پور سے 24 سالہ فیض خان شامل ہیں۔

 

Leave a reply