آپ حیران ہوں گے . تحریر:شفقت سجاد دشتی

میٹرک کلاس کا پہلا امتحان برصغیر پاک وہند میں 1858ء میں ہوا اوربرطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ برصغیرکے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اسلئے ہمارے پاس ‘پاسنگ مارکس’ 65 ہیں تو برصغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں 2 سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی آسانی کیلئے پاسنگ مارکس 33 کر دئیے گئے اورہم 2021ء میں بھی انہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کوتلاش کرنے میں مصروف ہیں.

جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھایا جاتا ہے اور وہ ‘اخلاقیات’ اور’آداب’ ہیں، حضرت علیؓ نے فرمایا: ‘جس میں ادب نہیں، اس میں دین نہیں مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علیؓ کو کیسے جانتے ہیں اورہمیں ابھی تک انکی یہ بات معلوم کیوں نہ ہوسکی بہرحال، اس پرعمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے ہمارے ایک دوست جاپان گئے اورایئرپورٹ پرپہنچ کرانہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اورپھرانکو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں۔

یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز۔

آپ یقین کیجئے استادوں کوعزت وہی قوم دیتی ہے جو تعلیم کوعزت دیتی ہے اوراپنی آنیوالی نسلوں سے پیارکرتی ہے جاپان میں معاشرتی علوم ‘پڑھایا’ نہیں جاتا کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہے اوروہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کیساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں، جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کیلئے بچے اوراساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں، صبح آٹھ بجے اسکول آنیکے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول، بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں جو صرف نقل اورچھپائی پر مشتمل ہے، ہمارے بچے ‘پبلشرز’ بن چکے ہیں÷

آپ تماشہ دیکھیں جوکتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پرنقل کرتے ہیں، بچے دوبارہ اسی کو کاپی پرچھاپ دیتے ہیں، اساتذہ اسی نقل شدہ اورچھپے ہوئے مواد کوامتحان میں دیتے ہیں، خود ہی اہم سوالوں پرنشانات لگواتے ہیں اورخود ہی پیپربناتے ہیں اورخود ہی اسکو چیک کر کے خود ہی نمبر بھی دے دیتے ہیں، بچے کے پاس یا فیل ہونیکا فیصلہ بھی خود ہی صادر کر دیتے ہیں اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اورقابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں، جنکے بچے فیل ہوجاتے ہیں وہ اس نتیجے پرافسوس کرتے رہتے ہیں اوراپنے بچے کو ‘کوڑھ مغز’ اور’کند ذہن’ کا طعنہ دیتے رہتے ہیں.

آپ ایمانداری سے بتائیں اس سب کام میں بچے نے کیا سیکھا، سوائے نقل کرنے اورچھاپنے کے؟
ہم پہلی سے لے کراوردسویں تک اپنے بچوں کو ‘سوشل اسٹڈیز’ پڑھاتے ہیں اورمعاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ یہ بتانے اورسمجھانے کیلئے کافی ہے کہ ہم نے کتنا ‘سوشل’ ہونا سیکھا ہے؟ سکول میں سارا وقت سائنس ‘رٹتے’ گزرتا ہے اورآپکو پورے ملک میں کوئی ‘سائنسدان’ نامی چیزنظرنہیں آئیگی کیونکہ بدقسمتی سے سائنس ‘سیکھنے’ کی اورخود تجربہ کرنے کی چیزہے اورہم اسے بھی ‘رٹّا’ اور ‘گھوٹا’ لگواتے ہیں.

ہمارا خیال ہے پالیسی ساز، پرنسپل، اساتذہ اورتمام اسٹیک ہولڈر اس ‘گلے سڑے’ اور’بوسیدہ’ نظام تعلیم کو اٹھا کرپھینکیں بچوں کو’طوطا’ بنانے کے بجائے ‘قابل’ اور’باشعور’ بنانے کے بارے میں سوچیں.

@balouch_shafqat

Comments are closed.