اصل سوچ کا فقدان!!! — ڈاکٹر حفیظ الحسن

0
38

گرمیوں کی چھٹیوں میں ہوم ورک ملتا۔ سلیبس کی کتاب سے پیج نمبر 3 سے پیج نمبر 222 تک جو لکھا ہے اُسے نئی کاپی پر نقل کرنا ہے۔ فلاں چیپٹر کو دوبارہ سے دوبارہ چھاپنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ گرمیوں کے کام کی کاپیوں پر محنت "اُنکی جِلد” اور ظاہری خوش خطی پر موقوف تھی۔ علم سیکھنا کیا خاک تھا؟ لکھا ہوا چھاپنا اور بولا ہوا رٹنا۔

آٹھویں جماعت میں سائنس انگریزی میں سیکھنی اور ستم ظریفی کہ انگریزی کا الگ سے مضمون ہونا جہاں پر گرامر رٹائی جاتی۔۔ایسے میں سائنس کیا خاک سیکھی جاتی جب سائنس کی زبان ہی اسی وقت سیکھی جا رہی ہوتی جب سائنس سیکھی جا رہی ہوتی۔ لہذا شارٹ کٹ محض رٹا یا گائڈز جس میں قدرے آسان انگریزی میں سائنسی موضوعات سمیٹے جاتے۔ پرچے میں یہی شارٹ کٹ لگا کر نمبر حاصل ہوتے۔ سکول سے لیکر یونیورسٹی تک سائنس کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔ ایسے میں جدید علوم کا حصول کیونکر ممکن ہے؟

آپ کسی محفل میں چلے جائیں دو بزرگ حضرات آپس میں کونسے حکمت کے موتی پرو رہے ہونگے؟ مڈل کلاس طبقے کے بزرگوں کے پاس زندگی کے کیا تجربات ہونگے؟ نہ اُن بیچاروں نے دنیا دیکھی نہ کوئی جدید علوم پڑھے۔ بات کریں زندگی کے تجربات کی تو اُنکی زندگی تھی کب اور اّنکی دنیا تھی کتنی بڑی ؟ گھر سے کاروبار یا دفتر، وہاں سے واپس گھر۔۔۔ خاندانی مسائل میں گھرے مڈل کلاس اور نچلے طبقےکے بزرگ کونسے نئے زندگی کے تجربوں کا گیان دے سکتے ہیں؟

اسی طرح پاکستان میں زیادہ تر امیر طبقہ ایک۔یا دو نسل قبل زمیندار تھا/ہے، ۔یا مقابلے کے امتحان میں رٹے والا یا فوج میں ترقی کرتے متوسط طبقے کے کسی فرد کی اولاد ہے جو گاؤں کی primitive سوچ سے نہیں نکل سکا۔۔انکی پرانی نسلوں کی غربت کے قصے ان میں لاشعوری طور پر کُھد چکے ہیں اور ایسا خوف ڈالے ہوئے ہیں کہ امیر ہو کر بھی انکی سوچ اپنے آباؤ اجداد جیسی غریب ہے۔ Financial insecurity کا منہ بولتا ثبوت اِنکی اوٹ پٹانگ حرکتیں ہیں جو انکے احساسِ کمتری کو نمایاں کرتی ہیں۔کبھی مارک زکر برگ کو دیکھا کہ گاڑی روکنے پر کہے: "تو مینوں جاندا نئیں”. کبھی ایلان مسک کا سنا کہ نشے میں دھت ہو کر کسی کو کچل دے وغیرہ وغیرہ۔

شیر کے پاس پہلے سے طاقت ہوتی ہے کہ وہ جنگل کا بادشاہ ہے مگر ڈرنا تو بکری سے چاہئے کہ اگر اسکے پاس طاقت آجائے تو وہ اسکا ذمہ دارانہ استعمال کیسے کرے گی؟ سو یہ وہ عمومی مسائل اور رویے ہیں جن سے کم سے کم ہمارے بزرگ تو اب تک نہیں نکل سکے لہذا جب یہ رٹا ہوا جملہ سننے کو ملتا ہے کہ بزرگوں سے سیکھیں تو حیرت ہوتی ہے۔

لہذا فی زمانہ مملکتِ خدادا کے نہ ہی بزرگ، نہ ہی اپر کلاس اور نہ ہی تعلیمی نظام ہمیں اصل سوچ کی طرف لا سکتا ہے۔ اصل سوچ کیسے آتی ہے؟ ایک اچھوتا خیال ، ایک اچھوتا آئیڈیا کیسے بنتا ہے؟ میرے نزدیک بچپن کی بہتر تعلیم سے اور اگر وہ میسر نہ ہو تو کم سے کم سوال کرنے کی عادت سے۔ تجسس سے، چیزوں کو گہرائی میں سوچنے سے، متابدل تعلیم کےذرائع سے وغیرہ وغیرہ ۔

بدقسمتتی سے ہمارے ہاں ان مثبت رویوں کا فقدان ہے۔ پچھلے ستر سال کی دھول ہم ابھی تک چاٹ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے ذہنوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں اور سوچ منجمد ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں کم سے کم آنے والی نسلوں کے لیے کچھ کرنا ہے۔۔اگر آپکے پاس جدید علم نہیں تو اپنے بچوں کی خاطر اسے سیکھیے یا کم سے کم اسے جانیں ضرور تاکہ اپنے بچوں کو بتا سکیں۔ بچوں میں سکول کی تعلیم سے ہٹ کر دیگر ذرائع جیسے کہ انٹرنیٹ سے بھی علم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ اور سب سے بہتر یہ کہ بچوں کو سوال کرنے سے، نئے تجربات کرنےسے مت روکیے۔ آپکو جواب نہیں آتا، مجھ سے پوچھیں، انٹرنیٹ پر خود ڈھونڈیں یا بچوں کو کہیں کہ سوال اچھا ہے، جواب ملکر ڈھونڈتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر کسی بچے کے تجسس کوغلط جواب یا یہ کہہ کر مت ختم کیجئے کہ سوال کرنا غلط ہے۔

اصل سوچ کا حصول معاشرے میں جدید تعلیم اور مثبت رویوں کے رجحان سے ہی ممکن ہے ورنہ رٹے زدہ، موکلد اور دولو شاہ کے چوہے ہی پیدا ہوتے رہیں گے حقیقی معنوں میں عقل کی معراج کوچھوتے انسان نہیں۔

Leave a reply