اٹک جیل میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے آرڈر کے باوجود عمران خان سے ملاقات نہ کرانے کے کیس کی سماعت ہوئی

عمران خان کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل استفسار کیا اور کہا کہ کیا ہو گیا شیر افضل صاحب؟ وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ وہ ہو گیا ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھا، آپ کے حکم کے باوجود ہمیں نہیں ملوایا گیا،ہم پر ایف آئی آر درج کر دی گئی،کل میں ضمانت پر تھا، پھر بھی مجھے گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان پر ڈیڑھ دو سو کیسز ہیں، ان کے وکیل کو صرف اس کیس میں تو نہیں ملنا جس میں ان کو سزا ہوئی، ان پر جو کیسز ہیں، ان سے متعلقہ وکیل ان کو ملنا چاہے گا،تاکہ وہ اس کیس سے متعلق عمران خان سے ہدایات لے سکے،

عمران خان کو اڈیالہ منتقل کرنے کی درخواست پر سماعت ہوئی، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب راؤ شوکت عدالت کے سامنے پیش ہوئے،چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل مروت عدالت کے سامنے پیش ہوئے،عدالت نے استفسار کیا کہ درخواست گزار وکلا کا کہنا تھا ٹرائل کورٹ نے اڈیالہ جیل بھیجا آپ نے اٹک بھیج دیا ، عدالت نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ اڈیالہ جیل سے اٹک جیل منتقلی کا فیصلہ تھا ؟ پنجاب حکومت کی جانب سے اٹک جیل منتقلی کا خط عدالت کے سامنے پیش کر دیا گیا، وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ ہمیں بھی لیٹر کی کاپی فراہم کی جائے ،

وکیل پنجاب حکومت کی جانب سے خط پڑھا گیا ،اٹک جیل منتقلی سے متعلق خط میں وجوہات کا ذکر موجود تھا، عدالت نے استفسار کیا کہ ایک چیز بتائیں کیا وکلا ملزمان سے نہیں مل سکتے ؟ وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ سات اگست کو ایک وکیل چیئرمین پی ٹی آئی سے ملے ،وکیل صاحب نے پائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے وکالت نامے دستخط کرائے ، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا صرف وکالت نامے دستخط کرانے کے لیے وکیل اپنے کلائنٹ سے جیل میں مل سکتا ہے ؟ اس طرح اجازت نا دینا تو عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر توہین عدالت میں آ جائے گا ، وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ سات اگست کو ہم نے ملنے کی اجازت دی آٹھ کو اور نو اگست کو یہ دیر سے پہنچے ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ صبح آٹھ بجے سے دو اور یہ تین بجے تک بھی ہو سکتی ہے کیا یہی ہے ؟ وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ جی بالکل اسی طرح ہی ہے ،اسلام آبا د ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ صبح 8 سے 2 بجے تک کوئی ملاقات کیلئے آئے تو کوئی قباحت تو نہیں؟ وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ یہ ہائیکورٹ ہے اور اس میں کی جانے والی غلط بیانی کے نتائج ہونگے، وکیل پنجاب حکومت کہہ رہے ہیں کہ میں گزشتہ روز پونے پانچ بجے اٹک جیل پہنچا،گزشتہ روز ڈیڑھ بجے اٹک جیل کے باہر میڈیا کو انٹرویو دیا، ڈیڑھ بجے سپریم کورٹ میں کیس چل رہا تھا اور ہم دونوں وہاں موجود تھے،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سابق وزیراعظم اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، ساتھ ہی وہ سزا یافتہ بھی ہیں دونوں چیزوں کو برابری کی بنیاد پر لے کر چلنا ہے، وکیل شیر افضل نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو کس کلاس میں رکھنا ہے، سات دن میں یہی فیصلہ نہیں ہو سکا، یہ کام ابتدائی طور پر ٹرائل کورٹ کے جج کا کام ہوتا ہے، ٹرائل جج، سپریٹنڈنٹ جیل اور ڈپٹی کمشنر نے کلاس کی سفارش کرنی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل منتقل نہ کرنے کی وجوہات مضحکہ خیر ہیں، جیل میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں تو چیئرمین پی ٹی آئی کے آنے سے کیا فرق پڑ جائے گا؟ اڈیالہ جیل سیکیورٹی کے حوالے سے سب سے مستحکم جیل ہے،
رولز کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل منتقل کیا ہی نہیں جا سکتا تھا،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے اپنے ذاتی معالج سے معائنے کی بھی استدعا کی گئی ہے، نمائندہ پنجاب حکومت نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ہسپتال میں معائنہ کے بعد ہی اپنے ذاتی معالج سے معائنے کی درخواست کی جا سکتی ہے، وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ نواز شریف سے انکے وکیل ڈاکٹر عدنان روزانہ ملتے تھے، عدالت نے کہا کہ کیا ایک اور ہائی پروفائل قیدی کو اپنے ڈاکٹر سے معائنے کی اجازت نہیں تھی؟ وکیل پنجاب حکومت نے کہاکہ مجھے اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں ہے، وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ آپ اڈیالہ جیل سے ریکارڈ منگوا لیں معلوم پڑ جائے گا، چیئرمین پی ٹی آئی کو انکا اپنا ڈاکٹر چیک کر لے گا تو کیا ہو جائے گا؟ مجھے سمجھ نہیں آتی یہ اتنا تنگ کیوں کر رہے ہیں،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی ملاقات اور سہولیات سے متعلق میں آرڈر کروں گا، چھوٹی چھوٹی چیزوں پر اس طرح کی شرائط عائد نہ کریں میں نے کہا تھا کہ دو تین وکلاء ملاقات کیلئے جایا کریں زیادہ نہیں،دو چار لوگوں سے کیا فرق پڑتا ہے سو پچاس جائیں تو پھر الگ بات ہے، وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ نیب کیسز میں چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت خارج ہو گئی ہے،نیب اب چیئرمین ہی ٹی آئی کو اپنی حراست میں لے کر ریمانڈ لینا ہے،ہم گزشتہ روز بشری بی بی کے ساتھ گئے اُنکی ملاقات ہو گئی لیکن ہمیں ملنے نہیں دیا گیا،
پولیس نے کہا کہ ایک دن میں ایک ہی ملاقات ہو سکتی ہے،واپسی پر ہمیں وکلاء کو بھی گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی،عدالتوں سے ہم ریلیف اسی لئے لیتے ہیں کہ ہماری عزت بچی رہے، ہمیں اب پتہ چلا ہے کہ شاندانہ گلزار پر بھی تھری ایم پی او لگا دیا گیا ہے،عدالت اگر سختی نہیں کریگی تو یہ اسی طرح حقوق پامال کرتے رہیں گے، چیئرمین پی ٹی آئی نے جائے نماز اور قرآن پاک مانگا تھا ہم وہ لے کر گئے، وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ جیل میں اُنکے پاس جائے نماز اور قرآن پاک دونوں موجود ہیں، وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ وہ انگلش ورژن استعمال کرتے ہیں ہم نے وہ دینا تھا، وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہم انگلش ورژن بھی فراہم کر دینگے،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کوئی دوائیاں وغیرہ بھی استعمال کرتے ہیں؟
کیا انہیں جیل میں ادویات بھی فراہم کی جا رہی ہیں؟ وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کیلئے جیل میں پانچ ڈاکٹر موجود ہیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہفتے میں اگر دو تین بار ملنا ہو تو اس میں کیا مضائقہ ہے،ایسا نہیں ہوتا پرچے ہوں وکیلوں پر ،جو قید میں ہیں ان کے حقوق ہیں ان کا انکار تو نہیں کر سکتے

نعیم حیدر ایڈوکیٹ نے کہا کہ میں ڈپٹی سپریڈنٹ جیل کے دفتر میں ملا ہوں وہاں کوئی سیکورٹی کا مسئلہ نہیں،وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ اس عدالت نے حفاظتی ضمانت مجھے دے رکھی ہے ان سے پوچھ لیں پھر بھی ہمیں گرفتار کریں گے،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ میں نے 7 دن کی حفاظتی ضمانت دے رکھی ہے توہین عدالت کی درخواست دیکھ لوں گا،وکیل نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی فیملی کی طرف سے یہ خطرہ ہے کہ ان کو زہر دیا جا سکتا ہے، جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب یہ یاد رکھئے گا چیئرمین پی ٹی آئی کی آپ کی حراست میں ہیں ذمہ داری جیل سپریڈنٹ پر ہے۔
عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا، عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مناسب آرڈر جاری کریں گے

واضح رہے کہ عمران خان کو قبل توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوئی تھی عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد عمران خان کو لاہور سے گرفتار کر کے اٹک جیل منتقل کر دیا گیا تھا،عمران خان اٹک جیل میں ہیں، عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ملزم نے جان بوجھ کر الیکشن کمیشن میں جھوٹی تفصیلات دیں، ملزم کو الیکشن ایکٹ کی سیکشن 174 کے تحت 3 سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے

آج پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے،

عمران خان کی گرفتاری کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان 

عمران خان کی گرفتاری کیسے ہوئی؟ 

چئیرمین پی ٹی آئی کا صادق اور امین ہونے کا سرٹیفیکیٹ جعلی ثابت ہوگیا

پیپلز پارٹی کسی کی گرفتاری پر جشن نہیں مناتی

Shares: