مزید دیکھیں

مقبول

وزیراعظم کا کل کوئٹہ کے دورے کا امکان

وزیراعظم شہباز شریف کا کل کوئٹہ کے ایک روزہ...

انسانی سمگلنگ کے 19 مقدمات، ملزم کا ریمانڈمنظور

انسانی اسمگلنگ کے 19 مختلف مقدمات میں ملوث ملزم...

نادیہ حسین کو کال کرنے والے جعل ساز کی تفصیلات سامنے آگئیں

پاکستانی اداکارہ نادیہ حسین کو ایف آئی...

شرجیل میمن سے برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنرکی ملاقات

سندھ کے سینئروزیرشرجیل انعام میمن سے کراچی میں تعینات...

آزاد وطن تحریر: تنزیلہ اشرف

"اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے مقاصد میں سے ایک مقصد آزاد ملک بھی حاصل کرنا تھا جہاں دینی ،معاشرتی،تعلیمی آزادی حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ آزادی رائے کی بھی آزادی حاصل ہو گئی ہر شخص اپنی رائے کے اظہار کے لیے آزاد ہو گا۔سوچ آزاد ہو گی ، انسان آزاد ہو گا۔۔ہم اپنی رائے دینے میں آزاد ہوں گے۔۔یہ تھا اصل ملک جس کو حاصل کرنے کا خواب دیکھا تھا اقبال نے”۔۔
"قائد اعظم نے تعبیر دی تھی ان کے اس خواب۔۔ان کا خیال تھا ہم آزاد وطن حاصل کر چکے ہیں جہاں ہم اپنی رائے آزادانہ , بلا خوف کے دے سکتے ہیں۔۔
لیکن افسوس ہم وطن حاصل کرنے میں تو کامیاب رہے لیکن آزاد وطن،آزاد سوچ حاصل کرنے میں آج بھی ناکام ہیں ہمارا دماغ غلامی کی نا ختم ہونے والی زنجیروں میں جکڑا ہے۔۔۔جسے لبرل ازم نے اور غلام بنا دیا ہے”۔۔
پاکستان میں کوئی شخص آزاد نہیں کہ وہ اپنی سوچ کو لوگوں پر آزادانہ ظاہر کر سکے ۔۔۔کوئی شخص سوشل میڈیا کے ذریعے ایک بات کرتا ہے, اپنا مثبت پیغام لوگوں تک پہنچاتا ہے تو غلام ذہن اس پیغام کو نہیں سنتے! اس بات کی گہرائی میں نہیں جاتے بلکہ اس شخص کے ماضی کو اچھالتے ہیں۔۔
"پچھلے دنوں! پاکستان کے نامور گلوکار ابرار الحق صاحب کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں اولاد کی تربیت پر انھوں نے اپنا موقف ظاہر کیا۔۔وہ ایک آزاد وطن کے آزاد شہری ہیں۔۔ اس وطن نے انھیں یہ حق دیا ہے کہ وہ آزادی رائے کا حق رکھتے ہیں ان کا پیغام مثبت تھا لیکن ہماری غلامانہ سوچ ۔۔کچھ لوگوں نے ان کی والدہ کی تربیت پر افسوس کیا! تو کسی نے انھیں ذاتی نشانہ بنایا کیا وہ آزاد ملک کے شہری نہیں؟
ہم کیوں مثبت پیغام دینے والے کو بھی نہیں چھوڑتے اسے یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا وہ واقعی ہی آزاد ملک میں سانس لے رہا ہے”؟ ۔
"مینار پاکستان لاہور میں جو واقعہ پیش آیا اس پر آپ نے بھی اقرار الحسن کے ویوز سنے ہوں گے۔۔انھوں نے کہا یا اللہ تیرا شکر ہے ! اس معاشرے میں تو نے مجھے بیٹی نہیں دی۔۔۔سارا ملک ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا، بات کی گہرائی جانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔۔انھوں نے "اس معاشرے کا "لفظ استعمال کیا تھا یعنی وہ بیٹی کے وجود سے نہیں ،معاشرے میں جا بجا بکھرے ان بھیڑیوں سے خوف زدہ ہیں جو معصوم بچوں کو گدھ کی طرح نوچ کھاتے ہیں۔۔
اس معاشرے سے کیا انسان کوخوف زدہ نہیں ہونا چاہیئے ؟
"ان کی بات کی گہرائی میں نہ اترنے والے اپنی بیٹیوں کو ان بھیڑیوں سے بچانے کے لیے آغوش میں چھپائے پھرتے ہیں”۔۔۔
"کیا ہمارا معاشرا ایک بیٹی کے لیے محفوظ ہیں ؟”
پہلے یہ سوال خود سے پوچھیں ،پھر کسی کو جواب دینے کے قابل بنیں۔۔ایک بندہ اپنی آزادی رائے کا حق استعمال کر رہا ہے آپ کو اس کی بات پسند نہیں آئی تو یہ آپ کی آزاد سوچ ہے۔۔اگلا بھی آزاد ہے۔۔
اس کے علاوہ حالیہ ہونے والے بہت سے ایسے واقعات دیکھنے میں آئے جن میں ایک شخص اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے ،”تو ہزاروں لوگ یہ ثابت کرنے میں لگے ہوتے ہیں کہ وہ ہوتا کون ہے ایک آزاد ملک میں سانس لے کر آزادی رائے کا حق استعمال کرنے والا”۔۔
ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم واقعی ہی آزاد ہیں؟
"آزاد وطن حاصل کرنے سے ذہنوں کی غلامی کو ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ سوچ آزاد ہونا ضروری ہے۔۔۔
سوچ آزاد ہو گی تو معاشرا آگے بڑھے گا نہیں تو ہم جیتے رہیں گے غلامی میں” ۔۔
"ہمیں ایسا پاکستان بنانا ہے جہاں کوئی مثبت بات کرتے ہوئے بھی غلام ذہنوں کی کائی زدہ باتوں سے نہ گھبرائے ۔ہم آزاد ہوں ،اور واقعی میں آزاد ہوں”۔
پاکستان زندہ باد