تحریک آزادی کا سفر تحریر: مزمل مسعود دیو

0
107

1857ء میں سلطنت مغلیہ کے آخری حکمران بہادر شاہ ظفر کو شکست دیکر انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو انگریزوں نے ہندووں کے ساتھ ملکر مسلمانوں کو غلامی میں دھکیلنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ انگریزوں کو اس وقت سب سے زیادہ خطرہ مسلمانوں سے تھا کیونکہ یہ حاکم قوم تھی۔ کسی وقت بھی سر اٹھا سکتے تھے اور ہندو جو عرصہ دراز سے رعایا بن کر رہ رہے تھے‘ اسی حال میں مطمئن اور خوش تھے بلکہ اب انہیں انگریزوں سے مل کر مسلمانوں کو دبانے کا موقع ہاتھ آگیا تھا۔ انگریز حکومت نے یہ حکمت عملی اپنائی کہ ہندوئوں کی سرپرستی کریں اور مسلمانوں کیو کمزور کریں تاکہ یہ خطرہ ہمیشہ کیلئے ختم کیا جا سکے۔

ہندووں نے مسلمانوں کی شکست اور زوال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندو مسلم اتحاد کا ڈھونگ رچایا کہ انگریز کے سامنے ہندو مسلمان مل کر ہی اپنے حقوق کا دفاع کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف انگریز کی تابعداری اور بھرپور تعاون کی حکومت کو یقین دہانی کرا دی۔ 1885ء میں کانگریس پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو ہندو سیاستدانوں نے اس میں جوق در جوق شمولیت اختیار کی۔ مسلمان جو بہادر شاہ ظفر کی شکست کے بعد پریشان تھے انہیں بھی اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے کے لیے کانگرس میں شمولیت کرنا پڑی۔ ہندووں کے تعصبانہ رویے نے مسلمانوں کو سوچنے پر مجبور کردیا اور ڈھاکہ میں 1906ء میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا اور مسلمانوں کے حقوق کی پاسداری کیلئے باقاعدہ سیاسی جدوجہد کا آغاز ہوا۔

انگریزوں کی مسلمانوں سے نفرت کا فائدہ ہندووں کو ہونے لگا اور اس بات کو بھانپتے ہوئے سرسید احمد خان نے جدید تعلیم کے حصول کے لیے علی گڑھ میں ایک ادارہ بنایا جسے بعد میں علی گڑھ یونیورسٹی بنا دیا گیا۔ یہیں سے قائداعظم کی رہنمائی میں دو قومی نظریہ پروان چڑھا۔ ملی یکجہتی نے قوم میں ایک نئی جان ڈال دی۔ قوم میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا۔ قائداعظم جو پہلے کانگریس میں تھے، مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ قائداعظم نے 1929ء میں مطالبات کے 14 نکات پیش کردیئے اور کانگریس نے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ 1930 میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس الہ آباد میں ہوا جس کی صدارت حضرت ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال نے کی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں ہندووں کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم وستم بیان کیے اور اس سے نجات کا واحد حل مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کے مطالبے کے طور پر بتادیا۔

1936ء میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کر دیاگیا اور 1937 ء کے الیکشن کے نتیجہ میں صوبائی حکومتیں بنائی گئیں۔ کانگریس حکومت کے صوبوں میں مسلمانوں کے حقوق کو پامال کیا گیا ، جائیدادوں پر غاصبانہ قبضے کر لئے گئے اور مسلمانوں کو درجہ دوم کا شہری بنا کر ان کے وجود کو ختم کرنے کے منصوبے بنائے گئے۔سرکاری ملازمتوں کے دروازے مسلمانوں پر بند کر دیئے گئے۔ ان تمام حالات کی وجہ سے 23 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کا تاریخ ساز جلسہ لاہور میں کروایا گیا اس جلسہ کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح نے کی اس کے علاوہ بہت سارے مسلم قائدین نے شرکت کی۔ جلسہ کے آخری سیشن میں تاریخی قرارداد پاکستان پاس کی گئی۔ جلسہ گاہ میں جس جگہ پر سٹیج لگایا گیا تھا یہ وہی جگہ ہے جہاں مینار پاکستان پوری شان سے کھڑاہے۔ اس پارک کا پرانا نام منٹو پاک تھا جسے تبدیل کرکے اب اس پارک کا نام اب اقبال پارک رکھا گیاہے۔
اس جلسے کے بعد مسلمانوں میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوا اور انہوں نے متحد ہوکر ایک علیحدہ وطن کے علامہ محمد اقبال کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا عہد باندھ لیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے مطالبے میں شدت آتی گئی اور انگریز اس بات پر سوچنے کو مجبور ہوگئے۔ مسلمان رہنماوں نے ہر محاذ پر اپنے مطالبے کو بڑے اچھے طریقے سے بیان کیا اور آخرکار 14 اگست 1947ء کو وہ ملک پاکستان ہمیں مل گیا جسکا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور اس کو پورا قائداعظم محمد علی جناح نے کیا۔
آزادی کی اس نعمت کے لیے ہمارے آباو اجداد نے بہت قربانیاں دیں اپنے گھر بار چھوڑے اور ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ یہ آزادی اتنی سستی نہیں اس کی قیمت کا شاید ہم میں سے کوئی بھی اندازہ نئیں لگا سکتا۔ اس کی قدر کریں اور عہد کریں کہ اس ملک کی طرف اٹھنے والی ہر میلی آنکھ نکال دیں گے اور اس کا دفاع کریں گے۔
اللہ پاک ہمارے وطن کو تاقیامت سلامت رکھے آباد رکھے اور شاد رکھے۔ آمین

‏@warrior1pak

Leave a reply