شیر شاہ سوری مسجد بھیرہ کا فضائی منظر
شیر شاہ سوری (1486 – 1545) ایسا فرماں روا تھا جس نے عوامی فلاح و بہبود کی جانب بھرپور توجہ دی. ایک کھلے میدان میں واقع جامع مسجد کو 1540 عیسوی میں شیر شاہ سوری نے بنوایا تھا. سکھا شاہی دور میں یہ مسجد اصطبل بن گئی. سکھوں نے مسجد کے دو گنبد شہید کر دیئے. اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت کے سبب شاہی مسجد لاہور کے خطیب قاضی احمد دین بگوی رحمہ اللہ کی مخلصانہ کوششوں سے یہ کھنڈرات پھر اللہ کا گھر بنے اور مسجد 1859 ء میں واگزار ہوئی. مسجد کا کل رقبہ 45 کنال ہے. مسجد کے صحن میں وضو کرنے کے لیے حوض ہے. جامع مسجد کی تعمیر میں سرخ مٹی، چونا، لوہا، دیار کی لکڑی اور پٹ سن کا ریشے دار مرکب استعمال کیا گیا ہے. مسجد کے مرکزی ہال میں خوش نما اور دلکش رنگوں سے نقش نگاری کی گئی ہے. اس مسجد کی خاص بات یہ ہے کہ دیکھنے والے کے دل و دماغ پر اس کی عظمت و ہیبت طاری ہو جاتی ہے اور اپنی خوبصورتی اور طرزِ تعمیر کے اعتبار سے منفرد اور یکتا ہے. مسجد کے دائیں طرف تاریخی مدرسہ دارالعلوم عزیزیہ اور بگویہ لائبریری واقع ہے. لائبریری میں قیمتی کتابوں کے علاوہ نادر مخطوطات، بیاضات اور تصاویر موجود ہیں. مسجد کے بائیں جانب خانقاہ بگویہ ہے جس میں نہ فانوس ہیں اور نہ ہی جھالریں. مزارات کے الواح بالکل سادہ ہیں بس شناخت کے لئے نام اور تاریخ وفات درج ہے. مسجد کے دو بلند و بالا مینار بھی ہیں. مسجد کے خطیب اور دارالعلوم عزیزیہ کے مہتمم مولانا ابرار احمد بگوی صاحب ہیں. یاد رہے کہ ماہنامہ شمس الاسلام 1925 ء سے یہیں سے شایع ہو رہا ہے.