باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بابری مسجد کی شہادت کے 28 برس بعد آج کیس کا فیصلہ سنایا جائے گا،
بھارت میں لکھنؤ کی ایک خصوصی عدالت کے جج ایس کے یادو فیصلہ سنائیں گے۔ عدالت کے باہر سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بابری مسجد کو شہید کرنے کے لیے بھارت کی موجودہ حکمران جماعت بی جے پی کے لیڈر ایل کے ایڈوانی نے مہم چلائی تھی،بابری مسجد شہادت کیس میں بی جے پی لیڈر ایل کے ایڈوانی،مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور کلیان سنگھ سمیت 32 نامزد ملزم ہیں اور لکھنؤ کی عدالت میں فیصلہ سنائے جانے کے دوران مرکزی ملزم غیرحاضر رہیں گے۔
بابری مسجد کی شہادت کیس کا فیصلہ دو سال میں سنایا جانا تھا لیکن خصوصی عدالت بار بار توسیع لیتی رہی،بھارتی سپریم کورٹ نے آخری توسیع 30 ستمبر تک دی تھی۔
واضح رہے کہ ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کے دو مقدمے عدالت میں زیر سماعت تھے۔ایک مقدمہ زمین کی ملکیت کا تھا جس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے گذشتہ برس نومبر سناتے ہوئے یہ قرار دیا کہ وہ زمین جہاں بابری مسجد تھی وہ مندر کی زمین تھی۔ اسی مقام پر دو مہینے قبل وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ایک تقریب میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔
دوسرا مقدمہ بابری مسجد کے انہدام کا ہے۔ چھ دسمبر 1992 کو ایک بڑے ہجوم نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ بابری مسجد پانچ سو برس قبل انڈیا کے پہلے مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ جبکہ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ یہ مسجد ان کے بھگوان رام چندر کے جائے پیدائش کے مقام پر تعمیر کی گئی تھی
بابری مسجد فیصلہ،سنی وقف بورڈ کے وکیل نے کیا اہم اعلان
سکھوں کی خوشیوں میں آج رنگ میں بھنگ ڈالی گئی،شاہ محمود قریشی
بابری مسجد،ہندوؤں کے خلاف فیصلہ جاتا تو ہندو دہشت گرد سپریم کورٹ میں گھس جاتے
بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے حوالہ سے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سنی وقف بورڈ کو5 ایکڑمتبادل زمین دی جائے ،مسجد کےلیےمسلمانوں کو متبادل زمین دی جائے گی،ہندووَں کوبھی متبادل مشروط زمین دی جائےگی،
بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ایودھیا زمین کسی بھی فریق کو نہیں دی گئی،بھارتی سپریم کورٹ نے مسلمانوں کو متبادل زمین دینے کا حکم دیا،متنازع زمین کا صحن ہندوَں کو دینے کا حکم دیا،متنازع زمین رام بھومی نیاس کو دے دی گئی،متنازعہ علاقے میں مندر تعمیر کیا جائے گا،
بابری مسجد فیصلہ، گورنر پنجاب کا ردعمل بھی سامنے آ گیا
بابری مسجد کے بعد ہندو انتہا پسندوں کی نظریں ایک اور تاریخی مسجد پر