بچوں کے حقوق اور معذور افراد کے تحفظ کے حوالے سے بلز آئندہ اجلاس تک موخر

senate

سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

کمیٹی اجلاس میں بچوں اور معذور افراد کے حقوق، اقلیتوں کے تحفظ، اور ملک میں بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام سے متعلق اہم قانون سازی اور انتظامی امور کے علاوہ نیشنل کمیشن ان رائٹس آف چائلڈز کے کام کے طریقہ کار، کارکردگی،فنگشنز اور بچوں کے خلاف ہونے و الے جرائم کی روک تھام کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق امور کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔بچوں کے حقوق اور معذور افراد کے تحفظ کے حوالے سے بلز آئندہ اجلاس تک موخرکردیئے گئے۔ سینیٹر ڈاکٹر زرقہ تیمور سہروردی نے کمیٹی اجلاس میں آن لائن شرکت کرتے ہوئے درخواست کی کہ وہ پہلے چیئرپرسن نیشنل کمیشن ان رائٹس آف چائلڈز سے مشاورت کر کے کمیٹی کو آگاہ کریں گی جس پر چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے دونوں بلز آئندہ اجلاس تک موخر کر دیئے۔

فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں نیشنل کمیشن فار مائنارٹیز بل 2025 کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں سیکرٹری وزارت انسانی حقوق نے کمیٹی کو بریفنگ دی اور بتایا کہ پاکستان نے بین الاقوامی کنونشنز پر دستخط کر رکھے ہیں، اور بل قومی اسمبلی سے منظور ہو چکا ہے۔فنکشنل کمیٹی نے بل کی مختلف شقوں کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ اراکین کمیٹی نے اس بات پر اتفاق کیا کہ قومی اسمبلی اور سینٹ اف پاکستان میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ممبران کا ان پٹ اس بل میں لازمی ہونا چاہیے جس پر چیئرپرسن کمیٹی نے سینیٹر سید علی ظفر کی زیر صدارت کمیٹی تشکیل دی جس کے ممبران میں سینیٹر طاہر خلیل اور سینیٹر پونجو بھیل ہوں گے جو ان امور کا تفصیل سے جائزہ لے گی اور 60 روز کے اندر رپورٹ تیار کر مین کمیٹی کو کو فراہم کریں گے زیلی کمیٹی میں ایوان بالا سے تعلق رکھنے والے اقلیتوں کے ممبران سمیت قومی اسمبلی کے اقلیتوں کے ممبران کو بھی خصوصی شرکت کی دعوت دی جائے گی۔

فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر میں بچوں کے اغوا، قتل اور چائلڈ ٹریفکنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات شدید تحفظات و تشویش کا اظہار کیا گیا۔چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر ثمینہ ممتا زہری نے کہا کہ ملک بھر میں بچوں کے اغوا، ریپ، چائلڈ ٹریفکنگ کے واقعات بڑھ رہے ہیں جو انتہائی تشویش کی بات ہے۔ متعلقہ ادارے مل کر ایسا لائحہ عمل اختیار کریں جس سے اس طرح کے واقعات کا تدارک یقینی ہو عوام کو تحفظ اور ریلیف فراہم کرنا ہم سب کا فرض ہے۔

آئی جی سندھ غلام نبی نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 2024 کے دوران 289 اغوا کے کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے 269 بچے بازیاب کرائے گئے جبکہ 66کیسز کا چالان کیا گیا۔ 66 کیسز کی انکوائری التوا کا شکار ہیں ،جبکہ 64 کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔گھر سے بھاگنے والے بچوں کے کیسز کی تعداد266 ہے،239 بازیاب ہوئے،55 کے چالان کیے گئے،57 کی انکوائری چل رہی ہے جبکہ 55 کیسز عدالتوں میں ہیں۔آئی جی سندھ نے کہا کہ مختلف اداروں کے ڈیٹا میں فرق پایا جاتا ہے، اور زینب الرٹ بل کے تحت کیس کے تین ماہ کے اندر ٹرائل مکمل ہونا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کیا کہ 2024 میں کراچی میں 37 بچے قتل ہوئے، جن میں سے 22 کیسز کےچالان ہوئے ۔ ہماری سزاؤں کی شرح 25 فیصد ہے جو پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔اتنی سزا کی شرح لندن میں بھی نہیں ہوگی۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ بچوں سے زیادتی کے 209 کیسز درج کیے گئے جن میں سے 117 بچے اور96 بچیوں کے تھے۔

سینیٹ کمیٹی میں یورپی یونین کے بیا کماری اغوا کیس پر تحفظات کا بھی ذکر کیا گیا۔ سیکرٹری وزارت انسانی حقوق نے بتایا کہ ہم اس معاملے پر سندھ پولیس کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور اس کیس پر عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے۔چیئرپرسن سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے پولیس کے رویے پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ "لوگ کیسز رپورٹ کرانے سے کتراتے ہیں کیونکہ پولیس کا رویہ عوام کے ساتھ دوستانہ نہیں ہے۔ پولیس کو اپنے رویے میں بہتری لانی ہوگی تاکہ لوگ جرائم رپورٹ کرنے سے نہ گھبرائیں۔”

فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں چائلڈ ٹریفکنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔پولیس حکام نے بتایا کہ کئی کیسز میں بچے اغوا نہیں ہوتے بلکہ صرف لاپتہ ہو جاتے ہیں، لیکن میڈیا کی وجہ سے معاشرے میں خوف و ہراس پھیل جاتا ہے۔پولیس جو کچھ کر سکتی ہے اپنے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔پولیس فرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہی ہے۔پولیس نے بہت سے ڈاکوؤں کو مارا ہے پولیس کو وسائل کی ضرورت ہے۔80 کی دہائی سے اغوا برائے تاوان کی وارداتیں شروع ہوئیں۔ٹیکنالوجی کی مدد سے لوگوں کو ٹریپ کر رہے ہیں۔ہماری حکمت عملی کی وجہ سے کچے میں اغوا کاروں کے خلاف موثر کاروائی جاری ہے پولیس کی بہترین حکمت عملی کی وجہ سے اغوا برائے تاوان میں کمی آئی ہے۔فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں آئی پنجاب کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار کیا گیا۔چیئرپرسن سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "پنجاب میں ریپ کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے، بے بی گینگ نے 26 دن کے بچے کو فروخت کر دیا، اور یہ بچے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرون ملک بھی فروخت کیے جا رہے ہیں۔

آر پی او راولپنڈی نے کمیٹی کو پنجاب میں بچوں کے اغوا کے کیسز پر تفصیلی بریفنگ دی۔ انہوں نے بتایا کہ 2022 میں 2339 کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ 2023 میں یہ تعداد 2448 تک پہنچ گئی۔چیئرپرسن کمیٹی نے پنجاب پولیس کی جانب سے ڈیٹا فراہم نہ کرنے بھی سخت برہمی کا اظہار کیا۔

بچے ٹی وی اور سوشل میڈیا سے کیا سیکھ رہے ہیں۔ ثمینہ ممتاز زہری
سینیٹر علی ظفر نے سوال اٹھایا کہ ایف آئی اے چائلڈ ٹریفکنگ کے حوالے سے کیا اقدامات کر رہی ہے؟ ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ 2023 میں ایک کراس بارڈر چائلڈ ٹریفکنگ کیس رپورٹ ہوا۔ چیئرپرسن ثمینہ ممتاز زہری نے زور دیا کہ بچوں کو اغوا کرکے بھیک منگوانے اور جبری مشقت کرانے والے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔انہوں نے کہا کہ تمام متعلقہ ادارے ان مسائل کے حل کے لئے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں تاکہ بچوں کے اغوا، زیادتی، چائلڈ ٹریفکنگ کے واقعات کو کنڑول کیا جا سکے۔ انہوں نے ان واقعات میں معاشرے میں خوف کی فضا پیدا ہو چکی ہے۔ خواتین تک ان واقعات سے محفوظ نہیں ہیں۔ آئی جی سندھ نے کہا کہ یہ جتنا سنجیدہ مسئلہ ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے قانون پر عمل درامد کی سخت ضرورت ہے زینب الرٹ بل میں فوجی عدالتیں قائم کر کے تین ماہ میں فیصلہ کرنا تھا۔ چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے کہا کہ متعلقہ محکموں کے اعلیٰ افسران سمیت سٹاف کی تربیت بھی اشد ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ خواتین پولیس کو بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے۔بچے ٹی وی اور سوشل میڈیا سے کیا سیکھ رہے ہیں۔ لوگوں کو پولیس کی حراست میں قتل کر دیا جاتا ہے۔ بہتری لانے کی سخت ضرورت ہے۔
نیشنل کمیشن ان رائٹس آف چائلڈز کی چیئرپرسن عائشہ رضا فاروق نے فنکشل کمیٹی کو ادارے کے کارکردگی، فنگشنز اور بچوں زیادتی سے بچانے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات اور دی جانی والی ریلیف سے متعلقہ امور کے حوالے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس ادارے کا پہلا کمیشن فروری 2020 میں بنا تھا جبکہ دوسرا کمیشن اپریل 2023میں بنا تھا جس کی میں چیئرپرسن ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے چھ ایکس افیشو ممبران ہیں۔ سیکشن 15 ہمارے مینڈیٹ کو ڈیل کرتا ہے۔ انہوں نے فنکشنل کمیٹی کو جامع بریفنگ دیتے ہوئے اس کے فنگشنز اور کارکردگی بارے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ چائلڈ لیبر کو دیکھنے کے لئے 2600 لیبر انسپکٹر ہیں۔ کم عمر بچوں کی شادی کے کیسز بھی بہت زیادہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برتھ رجسٹریشن بہت کم ہے ادارے کو 560 شکایات موصول ہوئیں جس میں 428 حل کر دی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ زینب الرٹ بل ودیگر متعلقہ بلز کے حوالے سے لوگوں کو معلومات میسر نہیں ہیں۔ ان کی آگاہی کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز سید علی ظفر، پونجو بھیل، طاہر خلیل،محمد ہمایوں مہمند، جام سیف اللہ خان کے علاوہ سیکرٹری وزارت انسانی حقوق، ڈی جی وزارت انسانی حقوق، آئی جی سندھ، ہوم ڈیپارٹمنٹ سندھ، ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب، پراسکیوشن آفس پنجاب، پراسکیوشن آفس سندھ، ڈائریکٹر ایف آئی اے و دیگر متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

Comments are closed.