بلوچستان: ڈاکٹرز اور حکومت میں ڈیڈ لاک برقرار، مریض رل گئے

0
51

کوئٹہ: بلوچستان میں ینگ ڈاکٹرز اور صوبائی حکومت کے درمیان ڈیڈلاک برقرار ہے،جس کی وجہ سے مریض سخت سردی میں رسوا ہورہےہیں مگرڈاکٹرز ہیں‌ کہ انکو اپنے مفاد کےعلاوہ کسی پرواہ نہیں‌

بلوچستان حکومت اور ینگ ڈاکٹرز کے درمیان جاری ڈیڈ لاک کے باعث مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ہڑتال کے سبب سرکاری اسپتالوں میں او پی ڈیز اور ان ڈور سروسز بند ہوئے تین ماہ بیت گئے جس کے باعث بچوں، بزرگ اور خواتین مریضوں کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

صوبے کے سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹرز کی ہڑتال کی وجہ سے مریض نجی اسپتالوں کا رخ کرنے اور مہنگا علاج کرانے پر مجبور ہیں۔

واضح رہے کہ چند رو قبل اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرنے والے ینگ ڈاکٹرز نے ریڈزون جانے کی کوشش کی جس پر پولیس نے ڈاکٹرز پر لاٹھی چارج کرتے ہوئے 20 ڈاکٹروں کو گرفتار کرلیا جب کہ اس دوران 6 پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔

خٰیال رہے کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ینگ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی ہڑتال کئی روز سے جاری ہے۔

گزشتہ روز صوبائی وزیر صحت سید احسان شاہ نے سرکٹ ہاؤس دالبندین میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ینگ ڈاکٹرز کا احتجاج سمجھ سے بالاتر ہے، ڈاکٹرز پر لاٹھی چارج مسئلے کا حل نہیں لیکن امن و امان قائم رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ینگ ڈاکٹرز کے مطالبات پر غور کرنے کے لیے کمیٹی بن چکی ہے، کمیٹی کی تشکیل کے باجود ریڈ زون پر دھرنا دے کر ڈیوٹی نہ کرنا بلا جواز ہے۔

انہوں نے کہا کہ تنخواہیں بڑھانے کے علاوہ ینگ ڈاکٹرز کے تمام مطالبات ماننے کو تیار ہیں، ڈاکٹرز کی تنخواہیں بڑھانے سے خزانے پر سالانہ 7 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔

سید احسان شاہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان معاشی طور پر کمزور ہے ہم دوسرے صوبوں کے برابر تنخواہیں نہیں بڑھا سکتے، اب بھی 17 گریڈ کے ڈاکٹر کی تنخواہ اسی گریڈ کے اسسٹنٹ کمشنر سے زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی درمیانی راستہ نکال کر ینگ ڈاکٹرز کا احتجاج ختم کیا جائے۔

صوبائی وزیر صحت کا مزید کہنا تھا کہ ضلعی سطح پر ڈپٹی کمشنر اور ڈی ایچ او ادویات کی خریداری کرسکتے ہیں، میڈیکل اسٹور ڈیپارٹمنٹ ایک کرپٹ ادارہ ہے جس سے خریداری کا اختیار واپس لے رہے ہیں۔

Leave a reply