کوئٹہ: بلوچستان ہائیکورٹ میں وفاقی آفیسران کا بلوچستان سے ایک ارب روپے اضافی تنخواہیں لینا چیلنج
باغی ٹی وی: جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کیا ڈی ایم جی سروس والے ہم سے زیادہ قیمتی و محترم ہیں کہ بلوچستان میں ان پر نوازشات کی بارش کردی جاتی ہے-
جسٹس جمال خان مندوخیل نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہتی گنگا میں سب ہاتھ دھو رہے ہیں مقامی ڈی ایم جی آفیسران نے یہ مراعات کس قانون کے تحت لی ہیں-
جسٹس حمید بلوچ نے کہا کہ کیا ہم نے اس صوبے پر رحم نہیں کرنا یہ کس طرح کا قانون ہے کہ صوبے اور وفاق کے دو ایک گریڈ آفیسران کے درمیان تفریق کی جا رہی ہے-
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو حکم دیا جائے کہ تنخواہوں کی مد میں ادا کی گئی ایک ارب روپے کی رقم صوبے کے اکاونٹ میں واپس جمع کروائی جائے –
درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ صوبائی سروس کے آفیسران کے خلاف تو تادیبی کاروائیاں ہوتی ہے جبکہ پاس والوں کی نہیں-
درخواست میں کہا گیا کہ سابق ڈپٹی کمشنر کوئٹہ طاہر ظفر عباسی اور کمشنر کوئٹہ عثمان علی کے متعلق کی جانے والی انکوائریاں کس سٹیج پر ہیں؟ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو طلب کرکے جواب طلب کیا جائے-
ڈی ایم جی افیسران کو بلوچستان حکومت ایک ارب روپے اضافی ادا کرچکی ہے کیا ڈی ایم جی سروس والے ہم پر احسان کر کے یہاں آتے ہیں یا ملازمت کرنے کے لیے-
درخواست میں مزید کہا گیا کہ 60 فیصد کوٹہ پاس سروس والوں کا ہے جس پر یہ پروموشن لیتے ہیں لیکن یہ صوبے میں سروس پسند نہیں کرتے ہیں، ان پوسٹوں کو خالی کرکے صوبائی سروس کے اہل آفیسران کو ان پر پرموشن دی جائے-
درخواست پر جسٹس جمال خان مندوخیل، اور جسٹس حمید بلوچ پر مشتمل بینچ کا حکم دیا گیا درخواست سماعت کیلئے منظور کی گئی اور تمام فریقین کو نوٹسز جاری کئے گئے-