مسلح افواج کے سربراہان نے جنرل (ر) رحیم الدین خان کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق مسلح افواج کے سربراہان نے جنرل (ر) رحیم الدین خان کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی نے جنرل (ر) رحیم الدین خان کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق دے
چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی نے سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل رحیم الدین کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہارکیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ جنرل رحیم الدین مرحوم پیشہ ورانہ سولجرتھے۔ انہوں نے سندھ و بلو چستان کے گورنر کی حیثیت سے ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا اوروطن کے دفاع اور امن و امان کے قیام کیلئے مرحوم کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ چیئرمین سینیٹ نے مزید کہا کہ جنرل رحیم الدین نے اپنے دورمیں بلوچستان میں قیام امن کیلئے مثالی کردار اداکیا۔چیئرمین سینیٹ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مرحوم کواپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور غم زدہ خاندان کو یہ صدمہ حوصلے اورصبر سے برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سینیٹر مرزا محمد آفریدی، قائد ایوان سینیٹ سینیٹر اعظم نذیر تارڑ، قائد حزب اختلاف سینیٹ سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے بھی سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل رحیم الدین کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے
بلوچستان اور سندھ کے سابق گورنر رحیم الدین خان پیر کو انتقال کرگئے۔ اہل خانہ کے مطابق مرحوم کی نماز جنازہ منگل یعنی آج شام کیولری گراؤنڈ لاہور میں ادا کی جائےگی ،رحیم الدین خان آفریدی پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل ہیں-
رحیم الدین 20 ستمبر 1978ء سے 22 مارچ 1984ء تک بلوچستان کے اور24 جون 1988ء سے 11 ستمبر 1988ء تک سندھ کے گورنر بھی رہ چکے ہیں-
رحیم الدین پاکستان کے پہلے کیڈٹ تھے جو فوج میں اعلیٰ ترین منصب تک پہنچے۔ وہ 21 جولائی 1926 کو قائم گنج اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کالج سے حاصل کی جس کی بنیاد ان کے چچا بھارت کے سابق صدر ذاکر حسین نے تقسیم برصغیر سے قبل رکھتی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستان ملٹری اکیڈیم (پی یو اے) ابتدائی مراحل میں تھی جہاں جنرل (ر) رحیم الدیٰ کو اس کا پہلا کیڈٹ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے بلوچ رجمنٹ کے انفنٹری آفیسر کی حیثیت سے پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ انہوں نے ایک کیپٹن کی حیثیت سے لاہور کے ہنگاموں کو کچلنے کے لئے ملٹری ایکشن میں حصہ لیا۔ انہوں نے مجلس احرار کے رہنماء مولانا عبدالستار نیازی کو گرفتار کیا رحیم الدین خان نے مسجد وزیر خان کے محاصرے کے لئے جنرل حیاء الدین کے احکامات ماننے سے انکار کیا۔
وہ 1978 سے 1984 تکے طویل ترین گورنر بلوچستان رہے انہوں نے بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کر کے صوبے میں فوجی آپریشن بند کئے۔ فراری باغیوں کے پاس جا کر متاثرین کے لئے معاوضوں کا اعلان کیا اور 1980 تک بغاوت کو کچلنے میں جنرل رحیم کامیاب ہوگئے ۔
انہوں نے کوئٹہ اور دیگر بلوچستان کے شہروں اور قصبوں کے لئے قدرتی گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا مرکزی مزاحمت ہونے کے باوجود بلوچستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ۔وہ چاغی میں ایٹمی تجربات کے لئے سائنس کی تعمیر کی نگرانی کرتے رہے۔جہاں 1998 میں نواز شریف حکومت کے دور میں ایٹمی تجربات کئے گئے اور پاکستان ایٹمی طاقت کاحامل پہلا اسلامی ملک بن گیا جنرل رحیم الدین مرحوم کو فوج میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔وہ ملک کے چوتھے چیئرمین جائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی رہے ۔
وہ فوجی افسران کی ملازمتوں میں توسیع کے شدید مخالف تھے ۔انہوں نے خود جنرل ضیاالحق کی جانب سے اپنی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع ٹھکرادی تھی ۔09۔1987 میں ریٹائر ہوگئے ۔جس پر جنرل کے ایم عارف کو وائس چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے توسیع دی گئی ۔لیکن ایک سال کے اندر ہی وہ جنرل ضیاء الحق اور وزیراعظم محمد خان جونیجو میں بڑھتی خلیج کی نذر ہوگئے ۔
جنرل رحیم الدین 1988 میں سندھ کے سویلین گورنر بھی رہے ۔جب مختصر عرصہ کے لئے گورنر راج لگایا گیا تھا انہوں نے جرائم پیشہ طور لینڈ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کیا مرکز کو ایم کیو ایم کی حمایت سےروکا جب اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان سندھ میں وزارت اعلیٰ کو بحال کرنا چاہا تو جنرل رحیم گورنر کےعہدے سے مستعفی ہوگئے ۔
راولپنڈی میں اپنی ریٹائرمنٹ کےدنوں میں انہوں نے آرمی چیف کے لیے جنرل آصف نواز اور جنرل عبد الوحید کاکڑ کی حمایت کی ۔ وہ اپنے چالیس سالہ پیشہ ورانہ کیرئیر میں اپنی دیانت داری سے نام کمایا۔