بینظیر بھٹو کا آج 71 واں یوم پیدائش

0
97
benazir

اسلامی دنیا کی پہلی منتخب وزیراعظم شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا 71 واں یوم پیدائش ،شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے یومِ پیدائش کی مناسبت سے پیپلز پارٹی کی جانب سے ملک بھرمیں تقریبات کا انعقاد کیا جائیگا ،

شہید بے نظیر بھٹو بانی پیپلزپارٹی اور نامورشخصیت ذولفقار علی بھٹو اور ایران کے بااثر اصفہانی خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون بیگم نصرت بھٹو کے گھر 21 جون 1953 کو پیدا ہوئی۔ بے نظیر نے سیاست میں قدم رکھا تو بے پناہ کامیابیاں سمیٹیں جس میں ان کی سب سے بڑی کامیابی مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیرعظم بننا تھا۔ آج 21 جون2024 کو انکی 71 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔

بینظیر27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی لیاقت باغ میں جلسے کے بعد ایک خودکش حملے میں شہید ہو گئی تھیں،وہ 21 جون 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، ریڈ کلف کالج اور ہارورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی سے سیاسیات، اقتصادیات اور فلسفے میں ڈگریاں حاصل کیں،انہیں سیاسی سفر کے آغاز ہی میں نہایت مشکل اور تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹنے اور مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ملک میں رہنا ممکن نہ رہا تو بھٹو کی بہادر بیٹی نے بیرون ملک رہ کر جمہوری جدوجہد جاری رکھی، اپریل 1986 میں وطن واپس آئیں تو ان کا بے مثال استقبال کیا گیا،1988 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد بے نظير بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں، مگر صرف اٹھارہ ماہ بعد ان کی حکومت ختم کردی گئی۔بینظر بھٹو نومبر 1993 میں دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئیں لیکن 1996 میں پیپلز پارٹی کے ہی نامزد صدر نے حکومت کا خاتمہ کردیا،جس کے بے نظیر بھٹو نے جلا وطنی اختیار کی، پھر 2007 میں انہوں نے پاکستان واپسی کا اعلان کیا اور جان کا خطرہ ہونے کے باوجود 18 اکتوبر 2007 کو کراچی پہنچیں،کارساز میں استقبالیہ کیمپ میں دھماکہ ہوا تاہم بینظیر محفوظ رہیں،پنڈی دھماکے میں وہ چل بسیں،

بےنظیر ایک بہادر خاتون تھی جن کا کردار پاکستانی سیاست کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آپ ان کی جرات کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ کارساز میں ان پر دھماکہ ہوا جس میں بیسیوں کارکنان شہید ہوگئے لیکن بی بی شہید واپس نہیں گئیں بلکہ یہ جانتے ہوئےبھی کہ انہیں قتل کردیا جائے گا مگر وہ پاکستان میں رہیں۔کارساز کے بعد وہ لیاقت باغ آئیں جہاں وہ زندگی کی بازی ہار گئیں لیکن انہوں نے سیاست میں تاریخ رقم کردی کہ ہمیشہ سیاست میں بہادر زندہ رہتے ہیں ناکہ وہ بزدل جو گھروں سے باہر ہی نہیں نکلتے ہیں اور ایسے لوگوں کا سیاست میں کوئی مقام نہیں ہوتا۔بے نظیر بھٹو بہادری کا ایک استعارہ تھیں اور انہوں نےہمت کے ساتھ ناصرف اپنے سیاسی مخالفین بلکہ ان قوتوں کا بھی مقابلہ کیا جو انہیںپاکستانی سیاست اور ملک دونوں سے باہر کرنا چاہتے تھے۔ اگر بے نظیر زندہ رہتی تو تیسری بار بھی وزیراعظم پاکستان رہتی لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں

"وہ آج بھی بینظیر ہے” کے موضوع پرسیمینار،آصفہ کی شرکت

خواتین کو بااختیار بنانے میں بینظیر کی جدوجہد کی دنیا معترف. شازیہ عطاء مری

Leave a reply