بیٹی کے گھر کے آداب تحریر : انجینیئر مدثر حسین

0
45

بیٹی اللہ کی دی ہوئی ایسی رحمت ہے جس کی چہچہاہٹ سے گھر کے آنگن میں رونق رہتی ہے. خود سے پیار لیتی اور بھرپور لاڈلی اور محبتوں کے حصار میں رہتی ہے. ایک باپ کے ساتھ اپنی بیٹی کی محبت دنیا کی تمام چیزوں سے انمول ہوتی ہے. لہجہ بھلے سخت ہی لیکن بیٹی کے لیے دل ہمیشہ موم کی طرح نم ہوتا ہے. بیٹی کے بچپن کے لاڈ، پھر تعلیم و تربیت بھر بلوغت کے ساتھ ساتھ اس کی شادی کی فکر باپ کی تگ و دو میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہے.
الغرض ایک باپ اپنی ہمت اور جوانی بیچ کر اپنی زاتی خواہشات کو ختم کر کے اپنے بچوں کا مستقبل خریدتا ہے. لیکن اس سب کے باوجود کائنات کی ہر چیز بھی بیچ ڈالے بیٹی کا نصیب اپنی مرضی کا نہیں خرید سکتا. بیٹی شادی کے ساتھ ہی باپ کی محبتیں اپنے دامن میں لئے اپنے شوہر کے گھر روانہ ہو جاتی ہے. ماں تو آہ و بقا کر لیتی ہے. باپ چپکے چپکے محبت کے آنسو اپنے دامن سے پونچتا ماں کو حوصلہ دیتا دکھائی دیتا ہے. دنیا اس باپ کا مضبوط اور حوصلہ مند کندھا تو دیکھتا ہے اس کے اندر بہتا جدائی کا سمندر کوئی نہیں دیکھ پاتا. اس کے آنگن کی چہچہاہٹ اس کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کسی اور کے آنگن میں مسکراہٹ بکھیرنے چل پڑتی ہے. یہ دنیا کا دستور اور قانون قدرت ہے. اپنے چگر کا ٹکڑا کسی کے حوالے کرن؛ اور کسی کے جگر کے ٹکڑے کو اپنے گھر کی عزت بنانا ازل سے چلا آ ریا قانون قدرت ہے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے.
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق رہنمائی فرمائی وہاں ہر رشتے کے آداب بھی سکھاے. بیٹی کے گھر کے آداب بھی سکھاے. نبی کریم خاتم النبیںن محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی جنہیں جنتی عورتوں کی سردار کا درجہ دیا گیا کیسے ان کے ساتھ پیش آتے اس حوالے سے دو واقعات اپنی تحریر کا حصہ بنانا چاہتا ہوں تاکہ ہماری رہنمائی ہو سکے.
صحیح بخاری میں روایت موجود ہے جس کا مفہوم ہے. ایک بار حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں فرمانے لگیں بابا جان (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے ہاتھ میں چکی چلا چلا کر چھالے پڑ گئے ہیں ابھی مال غنیمت میں کچھ لونڈیاں اور غلام آئے ہیں ان میں سے ایک مجھے دے دیں. آپ (رضی اللہ عنہا) نے جب ہاتھ بڑھایا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں چھالے دیکھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خاموشی سے دامن میں آنسو سمیٹے اور بیٹی کو تسبیح فاطمہ کا تحفہ دیا اور ساری دنیا کو پیغام دے دیا کہ بیٹی کے معاملات میں صبر سے کام لیا جاتا ہے. اور سمجھا دیا کہ بیٹا چکی پھر بھی تم نے پیسنی بچے پھر بھی تم نے ہی پالنے اور شوہر کی خدمت الغرض گھر کے سارے معاملات تم نے ہی دیکھنے ہیں.
*یہ تو ہے تربیت اہلیبیت بزبان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم*
کہ بیٹی کے گھر کے معاملات میں کوئی کسی قسم کی بھی دخل اندازی نہیں کی. چاہتے تو ایک لونڈی یا غلام دءلے سکتے تھے لیکن ساری دنیا کو ایک پیغام دے دیا کہ بیٹی کے معاملے میں صبر اور برداشست سے کام لیا جائے اور اسے اپنے گھر کو خود سمبھالنے کا موقع دیا جاے اور حالات سے خود نمٹنے کا موقع دیا جاے.
ایک جانب تو ہی پیغام تو دوسری جانب گھر کے آداب دیکھیں.

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ فاصلے پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گھر مبارک ہے جس کے کچھ فاصلے پر ایک مسجد منارتین واقع ہے. جو لوگ عمرہ اور حج کے لیے سفر کرتے ہیں اس جگہ سے تقریباً آگاہ ہیں. ہے ترک میوزیم (جو کسی دور میں ترک سٹیشن ہوا کرتا تھا) سے تھوڑا فاصلے پر اسی سڑک کے کنارے واقع ہے. حضور کریم خاتم النبیںن محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی بیٹی خاتون جنت سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے ملنے جاتے تو پہلے مسجد میں قیام کرتے اور گھر پیغام بھجواتے جب گھر سے واپس قاصد لوٹتا اجازت مل جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے. تو اس سے دو باتیں واضح ہوئیں.
*1. بیٹی کے گھر کے راز کسے بھی صورت آپ پر عیاں نا ہو سکیں اسی لیے جب بھی جاؤ اجازت لے کر جاؤ. تاکہ وہ اپنے معاملات کو حل کر سکیں اور بیٹی کا شوہر کا مقام کسی صورت مجروح نہ ہو سکے.*
*2. بالفرض کسی وجہ سے گھر میں آپسی ناراضگی والا معاملہ بھی ہو تو اس کو دور کرنے کا موقع مل سکے کیونکہ آپسی ناراضگی آپسی سمجھوتے سے ہی حل ہوتی ہے بیرونی مداخلت سے معاملات بگڑ جاتے ہیں*
کتنی خوبصورتی سے دین نے ہر معاملے کے آداب بتا رکھے ہیں ان دو واقعات سے ہمیں کھلی آگہی ملتی ہے بیٹی کے گھر سے متعلق معاملات میں رہنمائی ملتی ہے.
اللہ کریم ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین

@EngrMuddsairH

Leave a reply