بھارتی فلموں اور ڈرامے کے بچوں پر منفی اثرات تحرير : حمزہ احمد صدیقی

0
55


پانچ سال قبل کراچی میں پیش آنے والے ایک واقعے نے مجھ سمیت پوری پاکستانی قوم کو حیرت میں مبتلا کر دیا. دسویں جماعت میں پڑھنے والے 16 سالہ نوروز اور اس کی ہم جماعت فاطمہ نے اسکول میں اسمبلی کے دوران خودکشی کی.

پستول فاطمہ کے والد محترم کی تھی ،جوکہ نوروز نے منگوائی تھی اور دونوں نے پہلے ہی سے خودکشی کا منصوبہ بنایا ہوا تھا، اس کی وجہ ان کے درمیان کی محبت تھی اور ماں باپ ان کی شادی پر رضا مند نہیں تھے، خودکشی کے بعد دونوں کے سامنے آنے والے خطوط میں ایک دوسرے کے ساتھ دفن ہونے کی آخری خواہش ظاہر کی تھی.۔

اس سب میں اہم بات یہ ہے کہ کیا یہ انکی عمر تھی ان سب باتوں میں پڑنے کی؟؟ اس 16 سالہ عمر میں تو ان بچوں کو ابھی تک یہ بھی نہیں پتا ہوگا کہ محبت کس چیز کا نام ہے؟؟

والدین اتنے پیار سے اپنے بچوں کو پالتے ہیں،انکی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انکی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، انکے لیے طرح طرح کی تکالیف برداشت کرتے ہیں مگر پھر بچے ایسا کیوں کرتے ہیں؟ دراصل اس میں قصور انکی تربیت کا ہے، دین اسلام سے دوری اسکی سب سے بڑی وجہ ہے۔.

اس سب سانحہ میں ایک حیران کن بات جو سامنے آئی وہ یہ تھی کہ بچوں نے کسی بھارتی فلم کی نقل اتاری.بھارتی فلمیں جنہیں ہم خود اور اپنے بچوں کو انٹرٹینمنٹ کے لیے دکھاتے ہیں، دراصل ہمارے خزاں رسیدہ معاشرے کی خرابی کا باعث بن رہی ہیں.. ہماری نوجوان نسل کے اندر صنف مخالف کی طرف کشش مزید ابھارتی، بے حیائی اور فحاشی پھیلا رہی ہیں..

محبت کے نام پر ہمارے مہذب معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہی ہیں، ہمارے مہذب معاشرے میں نوجوان نسل کی خرابی کی دو اہم وجوہات ہیں، ایک بھارتی فلمیں اور دوسرا کو ہمارا ایجوکیشن سسٹم ہے.. یہ دو وہ اہم اسباب ہیں، جو ہمارے اس معاشرے کو بربادی کی طرف دھکیل رہے ہیں.

بھارتی فلمیں نوجوان کے ذہنوں میں یہ فتور ڈالتی ہیں کہ کسی کو کیسے سٹ کرنا، کیسے پروپوز کرنا اور پھر آگے بات کیسے بڑھانی۔۔اور کیسے محبت کرنی ہے، باقی اس کام کی آسانی کے لیے ہمارا کو ایجوکیشن سسٹم اور موبائل فون اور انٹرنیٹ موجود ہے.

میں یہ ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ بچوں کو موبائل فون اور انٹرنیٹ استعمال نہ کرنے دیا جائے ،مگر اس حوالے سے اپنے بچے پر نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے. ہماری تہذیب، ہمارا کلچر، ہماری ثقافت سب ہندوؤں نے تباہ و برباد کر دی۔آج ہمارے نوجوانوں کو قرآن کی سوتوں کے ناموں سے زیادہ بھارتی فلموں کے نام یاد ہوں گے،شاید انہیں قرآن پاک پڑھنا بھی نہ آتا ہو ،مگر گانے پوری پوری طرز کے ساتھ سنائیں گے. اور اس پر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ والدین اس پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ انکا بچہ گانا بہت اچھا گاتا ہے.

آج کل نوجوان نسل کی گفتگو کا موضوع ہی بھارتی فلمیں، فلموں میں کام کرنے والے اداکار اور فلموں کے گانے ہیں. صرف یہی نہیں بلکہ وہ ان بھارتی اداکاروں کی نقل اتارنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں. فضول قسم کے فیشن کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں.

کراچی کے سکول میں پیش آنے والا واقعہ بہرطور ایک نہ ایک دن رونما ہونا ہی تھا. اور اس میں قصور وار والدین ہیں جہنوں نے اپنے بچوں کو صحیح اور غلط کی پہچان بھی نہ کروا سکے اور کھلی چھٹی دے دی۔۔

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ بچہ اگر نماز نہ پڑھے تو اسے کچھ نہیں کہا جاتا، لیکن اگر وہ اسکول کا کام نہ کرے تو خوب مارا پیٹا جاتا ہے.۔ والدین بچوں کو فجر کی نماز کے لیے نہیں بلکہ اسکول جانے کے لیے اٹھاتے ہیں. آئے دن ہونے والی محبت میں خودکشیاں، ریپ کیسز اور دن بہ دن بگڑتا ہوا ہمارا خزاں رسیدہ معاشرہ، ہماری بربادی کے دروازے پر دستک دے چکا ہے۔.

میرے خیال میں والدین کو بھی اپنے بچوں پر نظر رکھنی چاہیے کہ وہ کہاں کس سے اور کیوں مل رہے ہیں. انہیں اپنے بچوں کی سوسائٹی کا علم ہونا چاہیے. اور اپنے بچوں کو بھارتی فلموں اور ڈراموں سے دور رکھیں. اگر والدین اس حوالے سے محتاط رہتے ہیں تو اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ نوجوان نسل کی سوچ میں تبدیلی آئے گی.

یہ ملک پاکستان، ہمارا ملک ہے. انتھک محنت، لاکھوں قربانیوں اور بے بہا خون کے ساتھ حاصل کیا گیا ہے. اسکی بربادی کی وجہ بھی ہم ہیں اور ہم ہی اسے ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں. اپنی ذمہ داریوں کو پہچانئے اور ایک اچھے پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کی کیجئے!

ہماری نوجوان نسل ہی دین اسلام اور پاکستان کا مستقبل ہیں، خدارا! انہیں یہود و نصارٰی اور ہندوؤں کی بے حیائی اور فحاشی کے جال میں پھنسنے نہ دیجئے! اس ملک کے تابناک اور روشن مستقبل کے لیے اپنا کردار ادا کیجئے! اپنے بچوں کو دین اسلام سے جوڑیئے! اور انکو ایک بہتر مسلمان بنانے کی کوشش کیجئے تاکہ وہ قوم کا سر فخر سے بلند سکیں.۔

اللہﷻ آپ کا حامی و ناصر ہو.

@HamxaSiddiqi

Leave a reply