بھارتی جرنلسٹ رویش کمار جرنلزم کا ایک بڑا نام کیسے بنا?

0
46

رویش کمار بھارتی میڈیا کا ایک جانا پہچانا نام ہے یہ بھارت کے ایک بہت بڑے پتر کار ہیں رویش کمار اپنے بے ساختہ اور دو ٹوک انداز کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ان کی اسی بے ساختگی اور دو ٹوک انداز کی وجہ سے اکثر لوگ یہاں تھ کہ بڑے بڑے نیتا ان سے خائف رہتے ہیں یہاں تک کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی بھی ان سے خائف ہیں

رویش کمار ممبئی پریس کلب کی طرف سے 2016 میں جرنلسٹ آف دا ایئر کا خطاب ملا تھا

رام ناتھ گوئنکا بہترین جرنلزم کا ایوارڈ 2013 اور 2017 میں ملا جبکہ 2019 میں وہ رامن میگسیسے ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں

کامیابیاں سمیٹنے والے رویش کمار کا تعلق بہار کے ایک چھوٹے سے صوبے موتہاری سے ہے رویش کمار نے ایک چھوٹے اور عام سے پتر کار کے طور پر کیسے اپنا کرئیر کا سفر شروع کیا اور کس طرح وہ دن رات کڑی محنت کر کے اس مقام تک پہنچے ہیں کہ آج ان کا شمار بھارت کے چند ایک بڑے پترکاروں میں ہوتا ہے اس کے بارے میں رویش کمار نے این ڈی ٹی وی پر اپنی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے چند رازوں سے پردہ اٹھایا

اور بتایا کہ وہ کس طرح ایک چھوٹے سے صوبے سے اپنا کرئیر بنانے ایک بڑے شہر میں آئے اور کس طرح محنت کی اور کس طرح سے ان کے نام کے ساتھ لفظ نمسکار جڑا اور سولہ سال سے ان کے نام کے ساتھ ہی جڑا ہواہے

رویش کمار نے بتایا کہ وہ جب این ڈی ٹی وی کے دفتر میں آئے تو ان کو ایسا لگا جیسے وہ ناسا کے کے دفتر میں آگئے ہیں انہوں نے پہلے بار یہاں ہی کمپیوٹر ای میلز بڑے بڑے کیمرے او وی وین پروڈکشن ہاوس وغیرہ دیکھے انہوں نے کہا میں نے ان سب چیزوں کو اس طرح دیکھا جیسے پٹنہ اسٹیشن پر سلیپر کلاس سے اتر کر اے سی کوچ میں جھانک کر دیکھتے تھے لوگ کیسے اے سی میں بیٹھتے ہیں

انہوں نے کہا وہ اس وقت این ڈی ی وی میں آئے جب ہندوستان بدل رہا تھا اور یہ 1996 کی بات ہے اور میرے جیسے کئی لوگ پورے دیش میں یہاں سے وہاں ہو رہے تھے اور نئی نئی نوکریوں میں جا رہے تھے اپنے کرئیر کا آغاز کر رہے تھے یہاں پر بھی بہت سارے ہمارے ساتھی کوئی ودیش سے پڑھ کر آئے تھے کوئی دلی کے ٹاپ کالجز سے پڑھ کر آئے تھے اور ہم بھی آگئے اور اس بھیڑ کا حصہ بن گئے

پورے ہندوستان سے آنے والے لوگ ہم نے یہ سب این ڈئی ٹی وی میں دیکھا اور پہلی بار ہم آپس میں سب بات کر رہے تھے سیکھ رہے تھے انہوں نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بات سچ ہے کہ شروع میں اس دفتر میں آنے پر بہت گھبراہٹ ہوتی تھی وہ ایک چھوٹے سے گاؤں سے تھے یہاں لوگوں کے بولنے کا طریقہ کپڑے چال ڈھال سب کچھ ان کے گاوں کے رہن سہن کے مطابق ان کے لئے اجنبی تھے لیکن آہستہ آہستہ اب کافی کچھ بدل گیا ہے

انہوں نے کہا تب لگتا تھا یہ ناسا تھا اب لگتا ہے یہ این ڈی ٹی وی ہے ان کے ایک کولیگ نے ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ر ویش یقینی طور پر انڈیا کی ایک بہت ہی یونیق الگ آواز ہے جب کہ ایک اور کولیگ نے رویش کمار کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ 2003 ،2004 اور 2005 میں جب وہ لگاتار لکھ رہے تھے تب میں نے دیکھا 2009 میں رویش 2004 اور 2005 کے رویش سے بہت بدلے ہوئے ہیں بہت آگے ہیں شاید اس جگہ پر کسی دوسرے نے اپنی سوچ کا قابلیت کا بہتر استعمال نہیں کیا جتنا رویش نے کیا یہ رویش کی طاقت ہے

رویش کمار نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ اپنے گاؤں سے شہر آےئے تھے تو وہاں وہ اپنے صوبے کے کسی بھی لوگوں کو دیکھتے تھے تو ان سے بات کر کے ان سے مل کر ااپنے آپ ایک رشتہ سا بن جاتا تھا انہوں نے کہا پروادی وہ لوگ ہیں جو اجڑے ہوئے ہیں اور ہر شہر میں اپنے کو دھونڈتے رہتے تب ہم کوئی فرق نہیں کرتے کہ میں موٹی کمائی والا پترکار ہوں دوسرے کم کمانے والے مزدور ہیں اس سب سے پرے ایک رشتہ سا بن جاتا تھا

انہوں نے مزید اپنے کام کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نےہر طرح کا یہاں پر کام کیا اور صرف انہوں نے ہی نہیں ہندوستان جیسے دیش میں لاکھوں لوگ اپنی شروعات نیچے سے کرتے ہیں اور اس میں کوئی خاص بات نہیں ہے اور میری یاترا میرے کریئر کے سفر میں بھی یہ کوئی خاص بات نہیں ہے کہ میں نے یہ شروعات نیچے سے کی

انہوں نے اپنے سیکھنے اور محنت کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ مارننگ شو میں گڈ مارننگ انڈیا میں جو اینکر ہوتے تھے ان کو میں دیکھا کرتا تھا چٹھیاں آتی تھیں ای میلزآتی تھیں وہ اس کا جوب کیسے دیتے تھے اسی میں دیکھ گیا کہ دیکھنے والے کو کیا چاہیئے ہوتا ٹیلی ویژن میں اور وہ کیسے باتیں کرتا ہے کاریکرم کے ذریعے تو ان سب چیزوں سے پھر میں ڈیسک پر آیا پھر رپورٹنگ کرنے لگا پھر کیا کیا کرنے لگا مجھے کچھ پتا نہیں چلا میں کب کہاں اور کس طرح سے کوئی کہانی کہہ رہا ہوں پھر پوری ایک نئی دنیا ایسے کھلتی چلی گئی جو میرے لئے کسی راز سے کم نہیں تھی

اور یہ وہ ٹائم تھا جب دیش بہت تیزی سے بدل رہا تھا پتر کاراؤں یعنی اخباروں میں سیلیکون ویلی کے قصے آ رہے تھے چھپ رپے تھے کوئی گاؤن سے شہر آ رہاتھا کوئی شہر سے امریکہ جا رہا تھا تو کوئی امریکہ سے مالئشیا جا رہا تھا اس طرح سے ایک بدلاؤ ہو رہا تھا

اور اسی میں ایک چیز میں نے جاننے کی کوشش کی کہ پلائن کیا ہے جب ہم لوگ بہار سے آئے تو ہمیں تھا کہ پلائن مطلب بھاگنا ہوتا ہے دھیرے دھیرے پتہ چلا کہ پلائن ہوتا ہے سمبھاوناؤں کی تلاش نئی راہوں کی نئی چیزوں کا کھوج ہر کسی کو اپنے ہر کسی کو اپنے جیون میں پلائن کرنا چاہیئے نئی سمبھاوناؤں کی تلاش میں آگے بڑھنا چاہیئے

رویش کمار کے مطابق ان کو لگتا ہے کہ ان سب کا اچھا موقع انھیں این ڈی ٹی وی نے دیا جو کہ جہاں سے انہوں نے نیہ راہ تلاش کی اپنے نئے سفر کا آغاز کیا رویش کمار نے این ڈی ٹی وی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سفر میں جن جن چرنوں جگہوں میں میری یاترا رہی ہے مجھے کبھی کی نے روکا نہیں کسی نے کبھی ٹوکا نہیں ایک بار وہ لال مائیک پکڑا دیا پھر کبھی کسی نے نہیں پوچھا کہ تم کہاں جاتے ہو کیا کرتے ہو کولیگ کہتی تھی تم کیا کرتے رہتے ہو دن بھرکس کی ریکارڈنگ کرتے رہتے ہویہ کیا اسٹوری ہے

اسی طرح سے ہم لوگ جوبھی ہیں اس کمپنی کی وجہ سے ہیں جیسے یہ کمپنی پچیس سال میں نوجوان ہو گئی ہم بھی سولہ سال میں کافی کچھ بدلے ہیں ہم بھی جوان ہوئے ہیں

انہوں نے اپنے این ڈی ٹی وی کے کچھ ساتھیوں اور کولیگ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہا اب میں کچھ آپ کو نام بتاتا ہوں جن سے انہوں نے سیکھا اور سکھایا راجدیپ برکھا اوورنو آسو وکرم منرنجن بھارتی منیس کما ر منودیپا تی ایس سودھی وجیتر ویدھی آنندیو چتر ویدھی –

چتر ویدھی ہماری دفتر کے پہلے شخص تھے جن کا نام لاگ ان نیم سے پڑھا

اور وجے جی کی ڈائری دیکھ کر اتنا ڈر لگتا تھا کہ اس میں کتنے نمبر ہیں پتہ نہیں میری ڈائری میں کب اتنے نمبر آئیں گے اور میرے پاس اتنی خبریں آئیں گی

راجدیپ اور منورنجھن بھارتی کے پاس ایک چیتھری سی کاپی ہوا کرتی تھی جن میں نمبروں اور پرانے نیتاؤں کے بائٹس ہو کرتے تھے

انہوں نے اپنے اس سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ راجدیپ ڈانٹتے بہت تھے بہت گھبراہٹ ہوتی تھی ڈر کے مارے دفتر کے پیچھے کے دروازے سے ہم لوگ آتے تھے خاص طور پر میں تو نتاشا اکثر کہتی تھی تم چوہا ہو ڈرتے ہو راجدیپ سے راجدیپ بھی بنا بات کے غصہ کرتے تھے اور میں سوچتا تھا کوئی اتنا غصہ ایڈیٹر کرتا ہے کیا

انہوں نے بتایا کہ ایک دن تو راجدیپ میرے بال کو لے کر غصہ ہو گئے یہ رپورٹر کے بال ہیں یا دیو آنند کے بال ہیں تم رپورٹر بننے آئے ہویا ہیرو بننے آئے ہو

اسی طرح سے کیمرہ مین بھی ایک سے ایک تلسی سریش کمار مایوک لائلی نتاشا ودوار نریندرا گوڈاولی بنتاشا ودوار سے سامنے تو سٹوری بتانے میں گھبراہٹ پوتی تھی وہ اتنی قابل تھیں کہ ڈر لگتا تھا کہ پتہ نہیں میری سٹوری کا لیول وہ ہے کہ نہیں ہے پر اس طرح سے ہم لوگوں نے سیکھا ہے

یہاں پر این ڈی ٹ وی می‌ں اور سب نے سب کو مل کر سیکھایا ہے کوئی یہاں ایک دوسرے سے اوپر نہیں تھا لیکن دھیرے دھیرے ان سب کی دخل اندازی نے ان سب کے سنجوگ سے ہم لوگ جو بھی بن پائے ہیں جتنا بھی بن پائے ہیں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری اس کامیابی میں اس کا حصہ نہیں ہے سب سب کا ہے ہو سکتا ہے اس کا نام نہیں آیا اور اس کو انعام نہیں ملا جو ہم لوگوں کو مل جاتا ہے

Leave a reply