بلاتصوّف تحریر: ثناءاللہ محسود.

0
90

خود ہی کی میں نے لگا کے بولی،

خود ہی کی میں نے لگا کے قیمت،

ہر ایک کو میں یہ کہہ رہا ہوں،

ہائے رے دنیا بڑی بری ہے۔۔

پچھلے دنوں اچانک میری نظروں کے سامنے پاکستان ٹیلی ویژن کے کسی پرانے ڈرامے یا کسی پروگرام کی تصویری جھلکیاں گذریں،جھلکیاں اتنی مختصر تھیں کہ پتہ نا  لگا سکا کہ کونسا ڈرامہ ہے اور اگرچہ کوئی پروگرام ہے تو نام کیا ہے اس کا،مگر ان مختصر سی جھلکیوں نے میری سوچ و فکر کے زاویے بدل ڈالے ،جیسے مجھے اپنا آپ پہچاننے کا یا اپنا احتساب کرنے کا سبق مل گیا اس مختصر سی جھلکیوں میں چند طالب علم اپنے اک عمر رسیدہ استاد سے سوال کر رہے تھے، وہ صرف سوال نہیں تھے زندگی کا مطلب تھا ان سوالوں میں جن کے جوابات وہ عمر رسیدہ استاد دے رہے تھے ایک طالب علم نے سوال کرتے ہوئے اک کہا کہ ماسٹر صاحب یہ تصوّف ہے کیا چیز؟؟

ماسٹر صاحب نے اپنی عمر کے حساب سے بہت ہی بختہ انداز میں جواب دیتے کہا، اپنے اخلاق سنوارنے اور بہتر انسان بننے کا نام تصوف ہے ورد وضیفہ تو اس کا سہارا ہے کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ذکر و وضائف کرنے سے سارے معاملات طے ہو جاتے ہیں ان بیچاروں کو کوئی سمجھاتا ہی نہیں کہ معاملات اور اخلاق کی درستگی کے بغیر وضیفے کاٹ نہیں کرتے یعنی اثر نہیں کرتے۔بس اسی ناسمجھی کی وجہ سے لوگ محروم رہتے ہیں”۔

ماسٹر صاحب کے اک سوال کے جواب نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتا رہا ساتھ پڑی تسبیح کو غور کرتا رہا مجھے میری عبادت اور جگ میں نیک پرستی پہ ترس آنے لگا جی میں وہ ہی انسان ہوں جو ہر گھر ہر جگہ ہر اٹھتی نگاہ میں ملے گا۔بلکل میں ہی ہوں وہ آج کا انسان جو تصوّف سے کوہ سو دور ہے،میں زمانۂ موجود کا ایسا انسان ہوں جس میں اخلاق کے نام پر چاپلوسی عبادت کے نام پر دکھاوہ ،محبت کے نام پہ نفس کی غلامی اور خدمتِ خلق کے نام پہ احسان جتانا کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے۔میں نے تصوّف کی معنی ہی بدل ڈالی ہے،میں وہ انسان ہوں میں خود سے پہلے دوسروں کو درس دیتا ہوں میرے دل کا آئینہ اپنی ہی خواہشات کی زد میں دھندلا سا گیا ہے مگر میں دوسروں کو اپنے ساتھ چشمے سے بہتے صاف و شفاف پانی جیسا دیکھنا چاہتا ہوں۔

میں ایک استاد ہوں تو میں طالب علموں سے پہلے خود کی سوچتا ہوں بیشک معاملات چلانے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر میں ایک استاد کی حیثیت سے اپنی پہلی اینٹری دیتا ہوں تو یہ نہیں پوچھتا ہوں بچے کتنے ہیں جن کو میں پڑھاؤں گا بلکہ یہ پوچھتا ہوں میری تنخواہ کتنی ہوگی۔۔

اگر میں اک ڈاکٹر ہوں تومیری اوّلین ترجیح مریض ہونے چاہئیں مگر یہاں بھی میری پہلی توجہ اس پہ ہوتی ہے کہ میری فیس کاؤنٹر پر جمع ہوئی کہ نہیں چاہے مریض آپریشن نا ہونے کی باعث اپنی جان کی بازی ہر جائے۔یہاں پہ اک بات میرے ذہن میں آتی ہے چند دنوں پہلے ہسپتال میں بہت ہی لاچار و مجبور غریب عورت اپنے بچے کو ڈاکٹر کے پاس لائی تھی اس بچے کو چمڑی کی بہت ہی تکلیف دہ بیماری تھی جوکہ اس بچے کے سر کے زخموں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ بچہ کتنی تکلیف میں تھا،چونکہ ڈاکٹر چمڑی کے امراض کے علاج کا ماہر ڈاکٹر تھا تو وہ بہت دور کسی گاؤں سے اپنے بچے کو ڈاکٹر کے پاس لائی تھی،شاید اس سے پہلے بھی اک بار آ چکی تھی،کچھ ہی دیر میں اس عورت کا نمبر آتا ہے اور وہ اپنے بچے کو اٹھائے ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں چلی گئیں ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کے کمرے سے ڈاکٹر صاحب کی شدید غصہ و برہمی کے انداز میں زور زور سے ڈانٹے کی آواز آنے لگی چونکہ کلینک چھوٹا سا تھا تو ساری آواز باہر سنائی دے رہی تھی،مگر ایسا بلکل بھی نہیں تھا کہ ڈاکٹر صاحب کسی ایمرجنسی کی صورت میں یہ انداز اپنائے ہوئے تھے بلکہ اس لیے چلا رہے تھے کہ اس مجبور و لاچار ماں نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ ڈاکٹر صاحِب یہ جو ٹیوب آپ نے لکھا ہے وں میں کل لے لوں گی کیونکہ جتنے پیسوں میں یہ آئے گا تو میرے پاس گھر واپسی کا کرایہ نہیں رہے گا میں بہت دور سے آئی ہوں اکیلی بھی ہوں ابھی اس کا عورت کا یہی کہنا تھا کہ ڈاکٹر صاحب آگ بگولا ہو گئے اور بہت بری طرح اس غریب سفید پوش عورت کی بیعزتی کی کہ وہ باہر آکر کسی کو آنکھ اٹھا کر بھی نا دیکھ سکی شرمندگی کے مارے جلد ہی کلینک میں ہی موجود اسٹور سے ٹیوب لیا اور چلی گئیں کیا ہوتا اگر ڈاکٹر اس کی مجبوری سمجھ لیتا،بھلا کوئی ماں چاہے گی کہ اس کا بچہ تکلیف میں رہے اس نے مجبوری کے تحت ہی محلت مانگی جس پہ اس کو شرمندہ کیا گیا یہاں تو سب سے پہلے ڈاکٹر کو چاہیے تھا کہ اس عورت کی مدد کرتا شاید وہ ایسا تب کرتا جب اس کے دماغ میں خدمت کا جذبہ ہوتا لیکن اس نے اپنے اسٹور کی کمائی کو اوّل رکھا،یہ سارہ منظر تو سب ہی نے دیکھا مگر کسی کو خیال نا آیا کہ وہ عورت کیسے گھر گئی ہوگی پتہ نہیں کسی نے مدد کی ہوگی کہ نہیں ارے جسے پہلی فرست میں مدد کرنی تھی اس نے تو اپنی ذات کی نیلامی میں قیمتوں کا بلند آسمان قائم کیا ہوا تھا تو کیسے کوئی مفلس پہنچے گا۔

ابھی اسی کشمکش میں دماغ الجھا ہو تھا رات بھر ننید نا آئی صبح آفس میں خود کو کام میں مصروف کر دیا،پیاس محسوس ہونے کی صورت میں آفس میں کام کرنے والی ماسی کو پانی پلانے کا کہا اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے محسوس کیا کے وہ کچھ تھکی تھکی سی لگ رہی ہیں،میں نے جان بوبھ کر پانی تاخیر سے پیتے ہوئے کہا بیٹھ جائیں باجی تو وہ سامنے والی کرسی پہ بیٹھ گئیں،میں نے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا ہوا باجی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں کیا؟تو انہوں نے بڑے تھکے ہوئے انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا آج تو ٹانگیں دکھ رہی ہیں اور ہلکی سی تھکی سی مسکراہٹ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دل کرتا ہے کاٹ کے رکھ دوں آج ٹاگیں سکون آجائے جب تک میں نے حیرت زدہ ہنسا سوال کرتے ہوئے کہا اللّٰہ خیر کرے باجی کیا ہوگیا،ایسا کیوں کہ رہی ہیں؟بولیں نا پوچھیں بیٹا ،سچ کہتے ہیں تھوڑا بہت پڑھ لکھ لیتے تو آج آسانیاں ہوتیں،آگے بتاتے کوئے کہا کہ کل میری بیٹی کا شناختی کارڈ بننا تھا،لمبی قطار لگی ہوئی تھی صبح سے تقریباً شام ہوگئی اور جب ہماری باری آئی تو پانچ منٹ بھی بڑے ہیں وہاں بیٹھے شخص نے ہمارے کاغذات دیکھ کر کہا اماں فلاں کاغذ نہیں ہے کل وہ لے کر آنا بعد میں کام ہوگا،تو بیٹا کام بھی نہیں ہوا اور درد ساتھ لے کر آئی ایسے میں چھٹی کا وقت ہوگیا اور وہ چلی گئی مگر میرے دماغ میں یہ بات بھی گھر کر گئی کہ کیا ہمارے معزز ادارے میں اتنا نہیں ہوسکتا ہے کہ قطار میں موجود لوگوں کو دیکھا جائے کہ آنے والوں کے کاغذات مکمل ہیں کہ نہیں اگرچہ نہیں ہیں تو ان کو بتایا جائے کہ وہ اتنی دیر نا کھڑے ہوں گھر جا کر اپنے کاغذات مکمل کر کہ آئیں مگر افسوس ایسا نہیں ہوتا ایسا ہوگا تو آرام و راحت میں خلل آئے گا۔اگر ڈیوٹی ہی دینے کے لیے آئے ہیں تو تھوڑا جذبۂ انسانی بھی ساتھ شمار کیا جائے تو کام اور عبادت کا مزہ بھی دہرہ ہوجائے،مگروہ ہی بات کہ بات صرف سمجھنے کی ہے اور ہمیں کسی نے سمجھایا ہی نہیں کہ دنیا میں قدر و قیمت سے مراد تنخواہ یا دولت حاصل کرنا نہیں ہے

کیا ہمیں نہیں آتا ذکرِ الٰہی سے پہلے اللّٰہ کی مخلوق کی خدمت کرنا،،بلکل آتا ہے مگر ہم کہیں کہو گئے ہیں ہم تو اس خدائی عظیم و عالیشان کی مخلوق ہیں جس نے خود اپنے حقوق یعنی حقوقِ اللّٰہ سے پہلے حقوق العباد کو ترجیح دی ہے تو ہم کیسے اس کے حکم کے بر عکس چل سکتے ہیں۔

اس تمام تر سوچ و کشمکش میں اپنے الفاظ کے ذریعے اظہار کے بعد میں نے اس پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے کی جھلکیوں کی مدد سے اس ڈرامے کا نام تلاش کرنا شروع کر دیا کافی دیر کی محنت کے بعد پتہ چلا کہ اس ڈرامے کا نام "من چلے کا سودہ” ہے جس کی جھلکیوں نے مجھے خود کو اپنے اندر بسے انسان کو جگانے پر مجبور کیا اور آج میری ساری سوچیں اک جگہ بیٹھ گئیں اور پشیمانی سی ہوئی، آج وہ دن تھا کہ مجھے معلوم ہوا واقعی ہم اس دور کے انسان ہیں جو انسانیت کم اور سودہ گری زیادہ کرتے ہیں۔ 

"اسلحے کی غداری نے نہیں بجھائی اتنی آنکھیں،

فقط اک ذات کی سودہ گری نے دھندلا دیا ہے عالم۔

        اللّٰہ جل جلالہ ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔

@SanaullahMahsod

Leave a reply