برطانوی وزیراعظم نے ملکہ برطانیہ کو بریگزٹ ڈیل سے چند ہفتے پہلے پارلیمنٹ معطل کرنے کا کہہ دیا

ڈیلی میل کے مطابق برطانوی حکومت نے ملکہ سے کہہ دیا کہ وہ ستمبر میں ارکان پارلیمنٹ کے کام پر واپس آنے کے کچھ دن بعد اور بریکسٹ ڈیڈ لائن سے چند ہفتوں قبل ہی پارلیمنٹ کو معطل کردے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ممبران پارلیمنٹ کے پاس 31 اکتوبر کو معاہدے سے متعلق بریکسٹ کو روکنے کے لئے قوانین پاس کرنے کا امکان موجود نہیں ہے۔
واضح رہے کہ برطانیہ نے سنہ 1973 میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی تھی اور سنہ 1975 میں اسے ریفرنڈم
کے ذریعے قانونی حیثیت دی گئی تھی۔ قانونی حیثیت ملنے کے 41 سال بعد برطانوی عوام نکے ذریعے قانونی حیثیت دی گئی تھی۔ قانونی حیثیت ملنے کے 41 سال بعد برطانوی عوام نے
سنہ 2016 میں ہی ایک ریفرنڈم کے ذریعے یہ فیصلہ کیا کہ یورپی یونین میں شمولیت ایک گھاٹے
کا سودا تھا، لہذا اب اس یونین سے قطع تعلقی کی جائے۔ 23 جون 2016 میں برطانیہ کے 51.9 فیصد
عوام نے یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیا۔
ریفرنڈم کے وقت کے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اس علیحدگی کے حق میں نہیں تھے ، سو انہوں
نے جمہوری روایات نبھاتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ایک ایسے وزیراعظم کے لیے
نشست خالی کردی جو کہ عوامی رائے کو مقدم رکھتے ہوئے یورپین یونین سے علیحدگی کے اس
عمل کو سہولت سے انجام دے ۔ برطانوی پارلیمنٹ نے اس عمل کے لیے تھریسا مے کو بطور وزیراعظم
چنا اور ا ن کی سربراہی میں شروع ہوا مشن بریگزٹ جس میں برطانیہ کی پارلیمنٹ ان سے امید رکھتی
تھی کہ وہ برطانیہ کے اس انخلا ء کے لیے ایک ایسا معاہدہ تشکیل دیں جو کسی بھی صورت
برطانیہ کے لیے نقصان کا سودا نہ ہو۔
جب یہ طے پاگیا کہ برطانیہ نے یورپی یونین سےعلیحدہ ہونا ہی ہے تو برطانیہ کے سامنے دو ہی راستے
تھے ، ایک یہ کہ سافٹ انخلا کرے یعنی جس میں یورپ کے ساتھ کچھ ایسے معاہدے کیے جائیں کہ برطانیہ کا انخلا بھی ہوجائے اور یورپی یونین کی شکل میں تشکیل پانے والی دنیا کی یہ واحد سنگل ٹریڈ مارکیٹ بھی متاثر نہ ہو۔ دوسری صورت کو ماہرین ’طلاق‘ کا نام دے رہے ہیں جس کے نتیجے میں برطانیہ کوئی خاص معاہدے کیے بغیر ہی یورپی یونین سے نکل جائے ، اس عمل کو اپنانے میں برطانیہ کو واضح نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دیکھا جائے تو سافٹ بریگزٹ ہی برطانیہ کے لیے فائدہ مند ہے لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے۔