برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے خلاف عدم اعتماد ناکام ہوگئی

اپنے دفتر میں سالگرہ کی بے تکلفانہ تقریب کرکے اپنی ہی عائد کی گئی کورونا پابندیوں کی خلاف ورزی کے معاملے کے بعد برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے خلاف عدم اعتماد ناکام ہوگئی۔

باغی ٹی وی : برطانوی میڈیا رپورٹس کے مطابق بورس جانسن کے خلاف عدم اعتماد کی ووٹنگ ہاؤس آف کامنز میں ہوئی اور ووٹنگ کا عمل پاکستانی وقت کے مطابق رات تقریباً 10 بجے شروع ہوا جو 12 بجے تک جاری رہا عدم اعتماد پر ووٹنگ کا نتیجہ پاکستانی وقت کے مطابق رات ایک بجے سامنے آیا جس کے مطابق برطانوی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد ناکام ہوگئی۔

عمران خان پچھلے سال سے کہہ رہے تھے ،کہ کچھ ہونے والا ہے،عظمی کاردار

برطانوی میڈیا کے مطابق 211 ارکان بورس جانسن کے حق میں جبکہ 148 نے ان کی مخالفت میں ووٹ دیا بورس جانسن کو عہدے سے ہٹانے کیلئے 180 کنرویٹو اراکین پارلیمنٹ کے ووٹ درکارتھے عدم اعتماد میں 59 فیصد کنزرویٹو ایم پیز نے جانسن کے حق میں جبکہ 41 فیصد نے ان کے خلاف ووٹ دیا۔

اس سے قبل برطانوی ‘ 1922کمیٹی’ کے سربراہ سر گراہم بریڈی کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے انہیں بورس جانسن کیخلاف عدم اعتماد پر ووٹنگ کیلئے لکھے خطوں کی حد درکار 15 فیصد تک پہنچ گئی دوسری جانب لیڈر آف اسکاٹش کنزرویٹیو ڈگلس روز نے بورس جانسن کے خلاف ووٹ دینے کا اعلان کردیا تھا۔

امریکا میں فائرنگ کے واقعات میں مسلسل اضافہ،مزید دو واقعات میں 6 افراد ہلاک متعدد زخمی

قبل ازیں کنزرویٹو قانون سازوں کی ایک کمیٹی کے سربراہ گراہم بریڈی کے ذریعہ اعلان کردہ اس اقدام کا اعلان کئی مہینوں کے بحران کے بعد کیا گیا اور ان دعوؤں کے درمیان سامنے آیا کہ مسٹر جانسن نےکورونا وائرس کی وبا کے عروج پرڈاؤننگ سٹریٹ میں منعقدہ لاک ڈاؤن توڑنے والی جماعتوں کے بارے میں پارلیمنٹ کو گمراہ کیا۔

مسٹر جانسن اس سال پہلے حاضر سروس وزیراعظم بنے جنہیں اپنی سالگرہ منانے کے لیے ایک اجتماع میں شرکت کرکے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر پولیس نے جرمانہ کی اور پچھلے مہینے ایک سینئر سرکاری ملازم، سیو گرے کی ایک رپورٹ نے ڈاؤننگ سٹریٹ میں قانون شکنی کرنے والی پارٹیوں کی ایک دلفریب تصویر پینٹ کی تھی جہاں عملے کے ارکان نے بہت زیادہ شراب نوشی کی، املاک کو نقصان پہنچایا اور ایک موقع پر آپس میں لڑ پڑے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی سمیت شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے، مسٹر جانسن کی ذاتی مقبولیت میں کمی آئی ہے اور جب وہ گزشتہ جمعہ کو ملکہ الزبتھ کی پلاٹینم جوبلی کے لیے تشکر کی خدمت میں پہنچے تو اس میں کچھ اضافہ ہوا۔

مسٹر بریڈی نے ایک بیان میں کہا کہ پارلیمنٹ کے 15 فیصد سے زیادہ کنزرویٹو ممبران نے اعتماد کا ووٹ طلب کیا تھا، جس نے ووٹ ڈالنے کے لیے ضروری حد کو عبور کیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ووٹنگ پیر کی شام 6 سے 8 بجے کے درمیان ہوگی۔

وزیرِ اعظم نے جاپانی کمپنیوں کےمسائل حل کرنے کیلئے کمیٹی قائم کر دی

مسٹر جانسن کو اب اپنا قائد رہنے کے لیے اپنی کنزرویٹو پارٹی کے قانون سازوں کے ووٹ میں سادہ اکثریت حاصل کرنا ہوگی۔ اس کا اب بھی مطلب ہے کہ اس کے پاس جیتنے کا اچھا موقع ہے کیونکہ اس کے مخالفین کو اسے گرانے کے لیے تقریباً 180 ووٹ اکٹھے کرنے ہوں گے، اور اس پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہے کہ ان کی جگہ کون لے گا۔

ووٹ خفیہ ہو گا، یہاں تک کہ وہ لوگ جو عوامی طور پر وفاداری کا دعویٰ کرتے ہیں، اگر وہ چاہیں تو خاموشی سے اپنی حمایت واپس لے سکتے ہیں۔ اگر وہ ناکام ہو جاتے ہیں تو ان کی جگہ پارٹی سربراہ اور وزیر اعظم کے لیے مقابلہ ہو گا۔

اپنے استعفیٰ کے مطالبات اور رائے شماری کی درجہ بندی میں کمی کے باوجود، مسٹر جانسن نے اپنے رویے پر اندرونی تنقید کو روکنے اور اعتماد کا ووٹ لینے سے روکنے کے لیے سخت جدوجہد کی تھی۔

عدم اعتماد سے پہلے خطاب کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اراکین پارلیمنٹ کے سامنے اپنا کیس پیش کرنے کے موقع کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ عدم اعتماد کی ووٹنگ سے وزیراعظم کی قیادت سے متعلق قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔

اچانک امریکی صدر بائیڈن کا دورہ سعودی عرب اور اسرائیل ملتوی

برطانوی وزیر خارجہ اور وزیر صحت سمیت کئی ارکان نے پہلے ہی اپنے وزیر اعظم کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ کورونا کے بعد بحالی اور روسی جارحیت کے خلاف یوکرین کی حمایت پر کئی ارکان بورس جانسن کے حق میں ہیں۔

تاہم اپوزیشن سمیت حکمراں جماعت کےکچھ ارکان بورس جانسن کے رویے سےکچھ زیادہ خوش نہیں بالخصوص کورونا پابندیوں کےدوران ملکہ برطانیہ کے شوہر کے انتقال کے موقع پر وزیراعظم کی جانب سے اپنے دفتر میں بے تکلفانہ تقریب پر سب ناراض ہیں۔

اس معاملے کو اس لیے بھی ہوا ملی کہ وزیر اعظم بورس جانسن اپنی غلطی منانے میں تاخیر سے کام لیتے رہے یہاں تک کہ انھیں اپوزیشن کی جانب سے مواخذے کی دھمکی بھی ملی تب کہیں جاکر بورس جانسن نے معافی مانگی۔

برطانیہ میں تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ پارلیمانی پارٹی کے اراکین اس بات پر ووٹ دیتے ہیں کہ آیا وہ موجودہ لیڈر کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

بنگلہ دیش: کمپنی میں آتشزدگی اور دھماکا،5 افراد ہلاک 100 سے زائد زخمی

کنزرویٹو پارٹی کے قوانین کے تحت، اگر اراکین پارلیمنٹ اپنے لیڈر سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو 1922 کی کمیٹی کے سربراہ کو عدم اعتماد کا ایک خفیہ خط جمع کراتے ہیں۔ وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے والوں کا نام صیغہ راز میں رہتا ہے۔

خیال رہے کہ وزیراعظم بورس جانسن کے خلاف تحریک اعتماد ان کی پارٹی کے 15 فیصد ارکان کی حمایت سے پیش ہوئی ہے۔ جس کے لیے 54 عدم اعتماد کے خطوط حاصل 1922 کی کمیٹی کے سربراہ گراہم بریڈی کو پیش کیے گئے تھے۔

بورس جانسن نے 2019 میں وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تھا اور انھیں عہدے سے ہٹانے کے لیے 180 کنزرویٹو اراکان کے ووٹ درکار ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر بورس جانسن اپنا عہدہ بچانے میں کامیاب بھی ہوگئے تو وہ کمزور وزیراعظم ثابت ہوں گے-

یوکرین پر حملہ:پوتن نے تاریخی غلطی کی: فرانسیسی صدرمیکروں

Leave a reply