لندن:برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اپنی حکومت سے 17 ارکان پارلیمنٹ کے مستعفی ہونے کے باوجود بطور وزیر اعظم "جاری رکھنے” کا عہد کیا ہے۔
بورس جانسن نےاپنے ساتھیون کو حوصلہ دیتے ہوئے کہاکہ ایسی کوئی پریشانی کی بات نہیں جب تک سمجھتا ہوں کہ امورمملکت اچھے انداز سےچل رہے ہیں تو مستعفیی نہیں ہوں اور حکومت کرتے رہیں گے ،
بورس جانسن نے ایک موقع پر کہا ک "مشکل حالات میں وزیر اعظم کوجب ساتھیون کی طرف سے حوصلہ دیا جائے اورپھرا سکے ساتھ ساتھ زبردست مینڈیٹ دیا جاتا ہے تو اسے جاری رکھنا ہی بہتر ہے اور میں حکومت کا معاملات جو احسن انداز سے جاری رکھوں گا
برطانوی کابینہ کے دو سینیئر وزرا ساجد جاوید اور رشی سونک کے مستعفی ہونے کے بعد دیگر وزرا بھی بورس جانسن کی حکومت کے خلاف ہوگئے۔
مستعفی وزرا کے استعفے وزیرِاعظم کی جانب سے ایم پی کرس پنچر کو ایک حکومتی عہدے پر لگانے پر معافی مانگنے کے چند منٹ بعد سامنے آئے۔
یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اس وقت مشکل میں گھرے نظرآئے جب کل برطانوی وزیرصحت ساجد جاوید اور وزیرخزانہ رِشی سوناک نے گزشتہ روز وزیراعظم بورس جانسن کی کابینہ سے استعفیٰ دیا ۔جبکہ پاکستانی نژاد ساجدجاوید نے اپنا استعفی ٹویٹر پر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘میں نے وزیر اعظم سے بات کی ہے کہ میں وزیرصحت اور سماجی نگہداشت کی حیثیت سے اپنے عہدے سے مستعفی ہورہا ہوں’’۔
انھوں نے کہا کہ ‘‘برطانیہ کے وزیرصحت کی حیثیت خدمات انجام دینا میرے لیے ایک بڑا اعزازرہا ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں اب اپنے ضمیر کے ساتھ اس کردارکو جاری نہیں رکھ سکتا’’۔رشی سونک نے اپنے استعفے میں لکھا کہ ’میں آپ کا وفادار رہا ہوں۔ میں نے آپ کی پارٹی کا سربراہ بننے میں حمایت کی اور دوسروں کو بھی اس طرف مائل کیا۔
ٹوری وائس چیئر بیم افولامی نے ٹی وی پر لائیو استعفیٰ دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ انہیں وزیراعظم کو سپورٹ کرنا چاہیے برطانوی رکن پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا کہ بورس جانسن کو اپنے عہدے مستعفی ہو جانا چاہیے۔جبکہ سولیکٹر جنرل انگلیڈ اینڈ ویلز ایلکس چاک ، ثاقب بھٹی ، جوناتھن گولیز، سمیت مزید پالیمانی رکن نے بھی استعفیٰ دیا۔اس طرح مستعفی ہونے والے کل ممبرپارلیمان کی تعداد 17 تک جاپہنچی ہے
ایک کے بعد ایک استعفیٰ سے برطانوی سیاست میں ہلچل ہے ۔ ان استعفوں سے وزیر اعظم بورس جانسن کا مستقبل مشکوک ہو گیا ہے۔ تاہم اب بھی بورس جانسن کے پاس سیکریٹری خارجہ، داخلہ، دفاع اور سیکریٹری کاروباری امور کی حمایت موجود ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان مضبوط وزارتوں کی بنیاد پر بورس جانسن نے مستعفی نہ ہونے اور حکومت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے
ادھردوسری طرف بورس جانسن پر مسلسل بڑھتا سیاسی دباؤ لیبر پارٹی کے سربراہ سر کیئرسٹارمر کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں فوری انتخابات کو خوش آمدید کہیں گے اور یہ کہ ملک میں حکومت کی تبدیلی بہت ضروری ہے۔
لبرل ڈیموکریٹس پارٹی کے سربراہ سر ایڈ ڈیوی بھی بورس جانسن کے خلاف کہتے ہیں کہ انہیں کو فوری مستعفی ہونا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کی بے ہنگم حکومت نے ملک کو ناکام کر دیا ہے۔
سکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر اور ایس این پی رہنما نکولا سٹرجن نے بھی بورس جانسن کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا نکولا سٹرجن نے الزام لگایا کہ بورس جانسن نے وزرا پر عوام سے جھوٹ بولنے کے لئے دباؤ ڈالا۔